روس میں ہونے والے انتخابات میں قوی توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ موجودہ صدر ولادیمر پوتن چوتھی مرتبہ بھی منصب صدارت کے لیے کامیابی حاصل کر لیں گے۔
روس جیسا بڑا ملک جو 11 مختلف ٹائم زونز میں بٹا ہوا ہے مشرقی حصے میں پولنگ کا آغاز گرینچ ٹائم کے مطابق ہفتہ کو رات آٹھ بجے ہوا اور یہ سلسلہ مختلف علاقوں میں گرینچ ٹائم کے مطابق اتوار کی شام چھ بجے تک جاری رہے گا۔
انتخابات میں پوتن کے علاوہ سات دیگر امیدوار بھی میدان میں ہیں لیکن رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پوتن کو ان سب پر واضح فرق سے اکثریت حاصل ہے۔
گو کہ انتخابات میں ووٹوں کی کم شرح کی توقع کی جا رہی ہے لیکن پوتن کی انتخابی مہم کے کارکنان کا دعویٰ ہے کہ یہ شرح کم از کم 70 فیصد تک رہے گی۔
انتخابات کے نتائج بھی فوراً آنا شروع ہو جائیں گے اور پوتن کے حامیوں نے ماسکو میں کریملن کے قریب ایک خصوصی اسٹیج بھی تیار کر لیا ہے جہاں متوقع کامیابی کے بعد پوتن خطاب کریں گے۔
روس کے 85 مختلف خطوں میں ایک لاکھ کے لگ بھگ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں جب کہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد دس کروڑ نوے لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں 145 مختلف ملکوں میں مقیم روسی باشندے بھی اپنا ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ فی الوقت بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے عملے کے روسی کمانڈر انٹون شکاپلیروف بھی ورچوئیل ووٹنگ کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال سکیں گے۔
18 سال قبل پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد پوتن نے ملک پر اپنی گرفت کو مضبوط تر کیا ہے جس میں ناقدین کے دعوؤں کے مطابق اپنے مخالفین کو خاموش کروانے کی کارروائیاں بھی شامل رہی ہیں۔
گو کہ پوتن نے نہ تو تندہی کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا اور ٹی وی پر نشر ہونے والے مباحثوں میں بھی شرکت سے گریز کیا لیکن انھیں توقع ہے کہ وہ 2024ء تک ایک مرتبہ پھر روس کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب ٹھیک چار سال قبل ہی پوتن نے ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یوکرین کے علاقے کرائمیا کا ماسکو کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔
کرائمیا کے باشندے بھی پہلی مرتبہ روس کے صدارتی انتخاب میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔