بائیڈن کا یوکرین کو میدان جنگ میں استعمال کے لیے جدید راکٹ سسٹم دینے کا فیصلہ
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کی شام اخبار نیو یارک ٹائمز میں آن لائن شائع ہونے والے مضمون میں کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ یوکرین کو مزید جدید راکٹ سسٹم اور جنگی سازوسامان فراہم کرے گا جو اسے ملک کے اندر میدان جنگ میں اہم اہداف کو زیادہ درست طریقے سے نشانہ بنانے میں مدد دے سکے۔
یہ رپورٹ وائس آف امریکہ کے چیف قومی نامہ نگار، سٹیو ہرمن دی ہے۔
صدر بائیؑڈن کی نیویارک ٹائمز میں لکھی گئی بات ان کے ایک دن پہلے دیے گئے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے جب امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ یوکرین کی جانب سے ایسے جدید میزائل سسٹم کی درخواست کو مسترد کر رہے ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ ممکنہ طور پر روس کے اندر تک حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہو۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئراہلکار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ M142 ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم کو یوکرین اپنی سرزمین پر روسی پیش قدمی کو پسپا کرنے کے لیے استعمال کرے گا "لیکن روسی علاقے میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے (استعمال) نہیں کرے گا".
' 600روسیوں پر جنگی جرائم کا شبہ ہے' یو کرینی پراسیکیوٹر جنرل
یو کرین کی اعلیٰ پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ ان کی نشاندہی کے مطابق 600 سے زیادہ روسیوں پر شبہ ہے کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
پراسیکیوٹر جنرل ایرینا وینیڈ کٹووا نے ہیگ میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ مشتبہ 80افراد کے خلاف فوجداری چھان بین کا آغاز ہو چکا ہے جن میں روس کے چوٹی کے فوجی، سیاستدان اور پراپیگنڈا ایجنٹ شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسٹونیا، لیٹویا، سلوویکیا، لتھووینیا اور پولینڈ بھی اس چھان بین میں شریک ہیں۔
اس کے علاوہ یہ گروپ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جس نے مارچ میں ممکنہ جنگی جرائم کی چھان بین کا آغاز کر دیا تھا۔
وینیڈ کٹووا نے مزید کہا،" ہمیں تمام چیزیں درست طریقے سے جمع اور محفوظ کرنی چاہئیں تاکہ وہ کسی بھی عدالت کے لیے قابلِ قبول ہوں۔"
روس اس بات سے مسلسل انکار کرتا ہے کہ 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد سے اس نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے کہا ہے کہ ان سب ملکوں کا مل کر کام کرنا، قانون کی حکمرانی کے لیے بین الاقوامی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
یو کرین میں زخمیوں کا علاج بھیانک خواب سے کم نہیں
یو کرین میں شہروں اور قصبوں کے ان ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جو روس کی جنگ کے اگلے محاذوں کے قریب ہیں۔
ان ہسپتالوں میں بیشتر عملہ چھوڑ کر جا چکا ہے اور جو باقی رہ گیا ہے انہیں معمول کے مریضوں کے ساتھ ساتھ زخمیوں کا بھی علاج کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کے لیے عافیت کی بات وہ ٹرین ہے جو 'ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز 'نامی تنظیم نے مریضوں اور زخمیوں کولیجانے کے لیے چلائی ہے۔ خصوصی سازوسامان کی حامل یہ ٹرین زخمیوں اور مریضوں کو بہتر علاج معالجے کے لیے ملک کے مغربی علاقوں میں لیجاتی ہے۔اس میں انتہائی نگہداشت کا ایک یونٹ بھی بنایا گیا ہے۔
مشرقی شہر کراماٹورسک میں ایک سرجن کا کہنا ہے کہ طبی عملے کو ان کی زندگی کے "سب سے بھیانک" خواب کا سامنا ہے۔ وہ ان عام شہریوں کا علاج کر رہے ہیں جو روسی حملوں میں زخمی ہوئے اور جن میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کے اعضاء حملے میں اڑ گئے۔
نیٹو کے کسی وزیرِ دفاع کو اغواء کر لیا جائے،' روسی قانون ساز'
روس کے ایک سینئیر قانون ساز نے تجویز پیش کی ہے کہ یو کرین میں نیٹو کے کسی وزیرِ دفاع کو اغواء کر لیا جائے اور پوچھ گچھ کے لیے ماسکو لایا جائے کہ مغرب کیف کو کیا احکامات دے رہا ہے۔
اولیگ موروزوف نے جو پہلی مرتبہ 1993 میں روسی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے اور روس کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رکن ہیں، کہا کہ یو کرین کے لیے مغربی ہتھیاروں کی فراہمی روس کے لیے ایک براہِ راست خطرہ ہے اور ما سکو کو اس کے فوجی عزائم پر نظرِ ثانی پر مجبور کر سکتا ہے۔
انہوں نے پیر کے روز روسی سرکاری ٹیلی ویژن ،"روسیا1" پر ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے کہا،" میرے پاس ایک منصوبہ ہے اور وہ یہ کہ مستقبل قریب میں نیٹو ممالک کا کوئی وزیرِ دفاع یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے بات کرنے کے لیے، ٹرین کے ذریعے کیف کا سفر کرے مگر وہاں نہ پہنچ سکے بلکہ اس کی آنکھ ماسکو میں کہیں کھلے۔"
ٹی وی اینکر نے سوال کیا،"کیا آپ اسے اغواء کرنے کی بات کر رہے ہیں؟"
موروزوف نے جواب دیا،" جی ہاں اور تب ہم جان پائیں گے کہ کس نے کیا حکم اور کس کے لیے دیا اور کون اس کا ذمےدار ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اب دنیا کے ضابطے تبدیل ہو رہے ہیں اور ایسا کرنا حقیقت سے دور نہیں۔ چنانچہ کیف کا سفر کرنے والے تمام وزراء دفاع کو سوچ لینا چاہئیے کہ ماسکو میں بیدار ہونا انہیں کیسا لگے گا۔
رائٹرز کے مطابق موروزوف اور ٹی وی اینکر دونوں میں سے کسی کا ردِ عمل معلوم نہیں ہو سکا۔
امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن اور وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن سمیت کئی مغربی وزراء یک جہتی کے اظہار کے لیے کیف کا سفر کر چکے ہیں۔