روس نے منگل کے روز ایران کی ادلب پر ممکنہ چڑھائی کی شرکت کی حامی بھری ہے جس کا مقصد شام کی جانب سے باغیوں کے زیر قبضہ صوبہٴ ادلب پر دوبارہ قبضے کا حصول ہے، جو ملک میں مخالفین کا آخری مضبوط ٹھکانہ ہے۔
روس کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ادلب دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے اور یہ کہ وہاں کی صورت حال شام کے تنازعے کے سیاسی حل کے تلاش کی کوششوں کے لیے نقصاندہ ہے۔
اس سے قبل پیر کے روز ایران کی وزارت خارجہ کی جانب سے ایسے بیانات آچکے ہیں، جن میں ادلب سے’’دہشت گردوں‘‘ کا صفایا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ایرانی ذرائع ابلاغ نے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کےشام کے دورے کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ادلب کو شامی عوام کے کنٹرول میں ہونا چاہیئے اور یہ کہ شام میں تعمیر نو کی کوششیں اور مہاجرین کی واپسی جاری رہنی چاہیئے۔
ادلب میں تقریباً 30 لاکھ افراد مقیم ہیں اور اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اُسے ہلاکتوں میں اضافے کے امکان پر پریشانی لاحق ہے جو شام کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کی شام ایک ٹوئیٹ میں متنبہ کیا ہے کہ ادلب پر ’’بغیر سوچے سمجھے حملہ‘‘ نہ کیا جائے۔
اُنھوں نے صدر بشار الاسد کی فوج کے دو کلیدی حامیوں پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی کارروائیوں سے باز رہیں۔
ٹرمپ نے کہا ہےکہ ’’ممکنہ انسانی المئے میں شامل ہو کر روس اور ایران ایک سنگین انسانی غلطی کے مرتکب ہوں گے۔ اس سے سینکڑوں ہزاروں انسان ہلاک ہوسکتے ہیں۔ یہ نہ کیا جائے‘‘۔
ڈیوڈ لیش سان اینتونیو کی ’ٹرینٹی یونیورسٹی‘ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ اُنہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ایسے میں جب کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہ کرنے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ ’’کسی حد تک دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے‘‘ ، لیکن ادلب میں جو کچھ ہوتا ہے امریکہ اس پر محدود حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔