ماسکو / تِبلیسی —
ولادیمیر پیوتن نے کہا ہے کہ سوویت یونین کا خاتمہ اس صدی کا سب سے اہم سانحہ تھا جس نے ساری دنیا کے سیاسی اور جغرافیائی حالات کو متاثر کیا ۔
گذشتہ جمعہ کو تاجکستان کے دورے میں روس کے صدر ولادیمیر پیوتن نے اس سابق سوویت ریاست میں تین فوجی اڈوں کی لیز(ٹھیکے) میں 30 سال کی توسیع پر دستخط کیے۔
ان تنصیبات پرسات ہزار روسی فوجی موجود ہیں جو بیرونی ملکوں میں تعینات روسی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔
صدر پیوتن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ روس اور تاجکستان اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
فوجی اڈوں کے سمجھوتے کےعوض روس نے وعدہ کیا کہ وہ بیرونِ ملک کام کرنے والے تاجک باشندوں کو روس میں کام کرنے کے تین سالہ پرمٹ جاری کرے گا۔
ہرسال لاکھوں تاجک کارکن روس سے تقریباً 3 ارب ڈالرکی رقم اپنے گھر بھیجتے ہیں جو تاجکستان جیسے غریب ملک کے لیے انتہائی اہم ہے ۔
فوجی اڈوں کے سمجھوتے پر دستخطوں کے وقت روس، تاجکستان اور وسط ایشیا کی دو دیگر سابق جمہوریتوں کے جنگی جہاز، فضا میں ’کلیئر اسکائی‘ نامی مشترکہ جنگی مشقیں کر رہے تھے۔
اُدھر ماسکو میں روسی پارلیمینٹ کے ارکان گذشتہ پیر کے انتخاب میں جارجیا کے صدر میخائل ساکاشیولی کی شکست کا جشن منا رہے ہیں۔
جارجیا کے نئے وزیرِ اعظم بِدزینا ایوانِشولی ہوں گے، جنھوں نے 1990 کی دہائی میں ماسکو میں اربوں ڈالر کمائے تھے۔
تِبلیسی میں جارجیا کی فاؤنڈیشن فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے صدر الیکسینڈر رونڈلی کہتے ہیں کہ روسی عہدے داروں کا خیال ہے کہ وقت ان کے ساتھ ہے ۔
’’روسی سفارتی تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ روسی چاہتے ہیں کہ جارجیا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اوراس بات کو تسلیم کرلے کہ قفقاز کے علاقے میں روس کی پیش رفت جاری رہے گی۔‘‘
ایک سال قبل، صدارتی امیدوار ولادیمیر پیوتن نے اعلان کیا تھا کہ ان کا مقصد ہے کہ 2015 تک ایک یورایشین یونین قائم کر دی جائے۔ بعض لوگوں نے اسے سوویت یونین کا ہلکا پھلکا روپ قرار دیا۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے لارنس شیٹس تِبلیسی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کا ایک ہدف یہ ہو سکتا ہے کہ جارجیا کو اپنے حلقۂ اثرمیں واپس لایا جائے۔
’’روس بیرونی ملکوں میں ایک بار پھر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے ، وہ جارجیا پر دباؤ ڈال رہا ہے تا کہ جارجیا ایک بار پھر اس کے گروپ میں واپس آ جائے۔‘‘
جمعے ہی کے روز بیلا روس کے صدر الیکسینڈرلُکاشنکونے رپورٹروں کو بتایا کہ وہ جارجیا کو کنفیڈریشن آف انڈیپنڈنٹ اسٹیٹس میں واپس لانے کی کوشش کریں گے، جو 15 سابق سوویت ریاستوں میں سے نو ملکوں کی ڈھیلی ڈھالی سی فیڈریشن ہے۔
لیکن ایک طرف تو مسٹر لُکاشنکو تقریر کر رہے تھے، اور دوسری طرف جارجیا کے نئے وزیرِ اعظم ایوانِشولی نیٹو کے جنوبی قفقاز کے اعلٰی عہدے داروں سے کہہ رہے تھے کہ تِبلیسی جارجیا کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست پرکام جاری رکھے گا۔
پیوتن کے لیے نیٹو کی رکنیت کا مطلب ہے ناقابلِ قبول سرخ لائن کو پار کرنا۔
روسی صدرکی نظریں خود مختار ملکوں کی ایسی فیڈریشن کی تخلیق پر لگی ہوئی ہیں جس میں کریملن ہرملک کی خارجہ، دفاعی اور اقتصادی پالیسیوں کی رہنمائی کرے گا، اگرچہ ایک مشترکہ کرنسی کا پراجیکٹ ترک کر دیا گیا جب یورپی کرنسی یونین کے کئی ملک شدید مالی مسائل کا شکار ہو گئے۔
پیوتن نے یورایشین یونین کی تشکیل کے لیے 2015 کی ڈیڈ لائن کیوں مقرر کی ہے؟ ۔
ماسکو کے بعض تجزیہ کار وں نے پیشگوئی کی ہے کہ اس وقت تک امریکہ عراق اور افغانستان سے نکل چکا ہوگا ، اور واشنگٹن اپنی توجہ پوری طرح روس پر مرکوز کر سکے گا۔
لیکن اگر مٹ رومنی نے اگلے مہینے کے صدارتی انتخاب میں اوباما کو ہرا دیا تو وہ دن اس سے پہلے آ سکتا ہے۔ صدارت کے ریپبلیکن امیدوار پہلے ہی روس کو امریکہ کا سب سے بڑا جغرافیائی اور سیاسی حریف قرار دے چکے ہیں۔
گذشتہ جمعہ کو تاجکستان کے دورے میں روس کے صدر ولادیمیر پیوتن نے اس سابق سوویت ریاست میں تین فوجی اڈوں کی لیز(ٹھیکے) میں 30 سال کی توسیع پر دستخط کیے۔
ان تنصیبات پرسات ہزار روسی فوجی موجود ہیں جو بیرونی ملکوں میں تعینات روسی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔
صدر پیوتن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ روس اور تاجکستان اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
فوجی اڈوں کے سمجھوتے کےعوض روس نے وعدہ کیا کہ وہ بیرونِ ملک کام کرنے والے تاجک باشندوں کو روس میں کام کرنے کے تین سالہ پرمٹ جاری کرے گا۔
ہرسال لاکھوں تاجک کارکن روس سے تقریباً 3 ارب ڈالرکی رقم اپنے گھر بھیجتے ہیں جو تاجکستان جیسے غریب ملک کے لیے انتہائی اہم ہے ۔
فوجی اڈوں کے سمجھوتے پر دستخطوں کے وقت روس، تاجکستان اور وسط ایشیا کی دو دیگر سابق جمہوریتوں کے جنگی جہاز، فضا میں ’کلیئر اسکائی‘ نامی مشترکہ جنگی مشقیں کر رہے تھے۔
اُدھر ماسکو میں روسی پارلیمینٹ کے ارکان گذشتہ پیر کے انتخاب میں جارجیا کے صدر میخائل ساکاشیولی کی شکست کا جشن منا رہے ہیں۔
جارجیا کے نئے وزیرِ اعظم بِدزینا ایوانِشولی ہوں گے، جنھوں نے 1990 کی دہائی میں ماسکو میں اربوں ڈالر کمائے تھے۔
تِبلیسی میں جارجیا کی فاؤنڈیشن فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے صدر الیکسینڈر رونڈلی کہتے ہیں کہ روسی عہدے داروں کا خیال ہے کہ وقت ان کے ساتھ ہے ۔
’’روسی سفارتی تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ روسی چاہتے ہیں کہ جارجیا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اوراس بات کو تسلیم کرلے کہ قفقاز کے علاقے میں روس کی پیش رفت جاری رہے گی۔‘‘
ایک سال قبل، صدارتی امیدوار ولادیمیر پیوتن نے اعلان کیا تھا کہ ان کا مقصد ہے کہ 2015 تک ایک یورایشین یونین قائم کر دی جائے۔ بعض لوگوں نے اسے سوویت یونین کا ہلکا پھلکا روپ قرار دیا۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے لارنس شیٹس تِبلیسی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کا ایک ہدف یہ ہو سکتا ہے کہ جارجیا کو اپنے حلقۂ اثرمیں واپس لایا جائے۔
’’روس بیرونی ملکوں میں ایک بار پھر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے ، وہ جارجیا پر دباؤ ڈال رہا ہے تا کہ جارجیا ایک بار پھر اس کے گروپ میں واپس آ جائے۔‘‘
جمعے ہی کے روز بیلا روس کے صدر الیکسینڈرلُکاشنکونے رپورٹروں کو بتایا کہ وہ جارجیا کو کنفیڈریشن آف انڈیپنڈنٹ اسٹیٹس میں واپس لانے کی کوشش کریں گے، جو 15 سابق سوویت ریاستوں میں سے نو ملکوں کی ڈھیلی ڈھالی سی فیڈریشن ہے۔
لیکن ایک طرف تو مسٹر لُکاشنکو تقریر کر رہے تھے، اور دوسری طرف جارجیا کے نئے وزیرِ اعظم ایوانِشولی نیٹو کے جنوبی قفقاز کے اعلٰی عہدے داروں سے کہہ رہے تھے کہ تِبلیسی جارجیا کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست پرکام جاری رکھے گا۔
پیوتن کے لیے نیٹو کی رکنیت کا مطلب ہے ناقابلِ قبول سرخ لائن کو پار کرنا۔
روسی صدرکی نظریں خود مختار ملکوں کی ایسی فیڈریشن کی تخلیق پر لگی ہوئی ہیں جس میں کریملن ہرملک کی خارجہ، دفاعی اور اقتصادی پالیسیوں کی رہنمائی کرے گا، اگرچہ ایک مشترکہ کرنسی کا پراجیکٹ ترک کر دیا گیا جب یورپی کرنسی یونین کے کئی ملک شدید مالی مسائل کا شکار ہو گئے۔
پیوتن نے یورایشین یونین کی تشکیل کے لیے 2015 کی ڈیڈ لائن کیوں مقرر کی ہے؟ ۔
ماسکو کے بعض تجزیہ کار وں نے پیشگوئی کی ہے کہ اس وقت تک امریکہ عراق اور افغانستان سے نکل چکا ہوگا ، اور واشنگٹن اپنی توجہ پوری طرح روس پر مرکوز کر سکے گا۔
لیکن اگر مٹ رومنی نے اگلے مہینے کے صدارتی انتخاب میں اوباما کو ہرا دیا تو وہ دن اس سے پہلے آ سکتا ہے۔ صدارت کے ریپبلیکن امیدوار پہلے ہی روس کو امریکہ کا سب سے بڑا جغرافیائی اور سیاسی حریف قرار دے چکے ہیں۔