رسائی کے لنکس

توانائی کے ذرائع روس پر پابندیوں کے اثرات کم کرنے میں کتنے مددگار ثابت ہو رہے ہیں؟


روس کے مشرقی علاقے میں واقع کوزمینو کی بندرگاہ پر لنگر انداز ایک آئل ٹینکر۔ (فائل فوٹو)
روس کے مشرقی علاقے میں واقع کوزمینو کی بندرگاہ پر لنگر انداز ایک آئل ٹینکر۔ (فائل فوٹو)

یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس پر جو تعزیرات امریکہ اور دوسرے ملکوں نے عائد کی ہیں ان کے اثر کو کم کرنے کےلیے روس نے اب اپنے تیل اور گیس کے خریداروں سے یہ مطالبہ شروع کردیا ہے کہ وہ ان کی قیمت ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی روبل میں وصول کرے گا، کیونکہ یوں بھی ان تعزیرات کے سبب اس کے لیے ڈالر میں کاروبار کرنا ممکن نہیں ہے۔

تاہم، مغربی حکومتوں نے یہ کہتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے کہ تیل اور گیس کی خرید و فروخت کے معاہدوں میں ان کرنسیوں کا تعین کیا جاتا ہے جن میں یہ سودے ہوئے ہیں اور صرف ایک فریق اپنے طور پر اسے تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ بہرحال، روس کے اس مطالبے سے ڈالر کے مقابلے میں روبل کی قدر جو پہلے بہت کم تھی اب کچھ بڑھی ہےاور روسی اسٹاک انڈیکس میں بہتری دیکھی گئی ہے۔

ہر چند کہ تعزیرات کے نتیجے میں یورپ کےلیے روسی تیل اور گیس کی فراہمی ابھی بند نہیں ہوئی جو اپنی 40 فیصد ضروریات کے لیےروس پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن یورپی ملکوں نے اس انحصار کو کم کرنے کےلیے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔مثلاً پولینڈ نے ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے جن کے تحت اس سال کے آخر تک روس سے تیل کی تمام درآمدات ختم کردی جائیں گی، اور جرمنی نے اپنے عوام سے تیل اور گیس کے استعمال میں کمی کرنے کےلیے کہا ہے۔ ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ جب تک امریکہ کی جانب سے اس کے وعدے کے مطابق ایندھن کی فراہمی میں اضافہ اور دوسرے ذرائع سے تیل اور گیس کی اضافی سپلائی کا انتظام نہ ہو جائے، جرمنی جیسے ملکوں میں توانائی کے استعمال پر راشننگ کی جا سکتی ہے۔

بعض ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ جو پابندیاں اس وقت روس پر عائد کی گئی ہیں ان کا فی الحال تو یقینًا روس کی معیشت پر اثر پڑے گا، لیکن طویل المدت اثرات مختلف ہوں گے۔

شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کِہ ان پابندیوں کے روسی معیشت پر اثرات وقتی ہوں گے۔ لیکن طویل المدت اثرات منفی نہیں ہوں گے، کیونکہ ان پابندیوں کے سبب روس یورپ کو چھوڑ کر نئی منڈیوں میں ، خاص طور سے ایشیاء میں اپنا تیل اور گیس فروخت کرے گا۔

ااس وقت روس اپنے تیل اور گیس کی فروخت کے لیے یورپ پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن ان پابندیوں کے نتیجے میں اب خیال یہ کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنا رخ ایشیا میں، چین، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دوسری ابھرتی ہوئی معیشتوں کی جانب کرے گا اور اپنا بیشتر تیل اور گیس ان ملکوں کو فروخت کرے گا اور شاید قیمت بھی روبل، یو آن یا دوسری کرنسیوں میں وصول کرسکے اورڈالر پر انحصار کو کم سے کم کر دے گا۔اور یہ ایک مجموعی صورت حال میں بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر ظفر بخاری کا کہنا تھا کہ روس کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ اس کے پاس ایسا پروڈکٹ ہے جس کی دنیا کے ہر ملک کو ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اپنی بات آخر کار یورپ سے بھی منوا سکتا ہےاور دوسرے ملکوں سے بھی کہ وہ قیمت روبل میں وصول کریں گے۔

لیکن تیل کی صنعت کے ایک تجزیہ کار مسعود ابدالی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی اتنی آسان نہیں ہوگی، کیونکہ یورپ کے سلسلے میں تو دونوں فریقوں کو یہ فائدہ ہے کہ بیشتر سپلائی پائپ لائینوں کے ذریعے ہوتی ہے، جو پہلے ہی سے کام کر رہی ہیں۔ لیکن نئے مقامات کے لیے تیل کی فراہمی کے واسطے نئے ذرائع اختیار کرنے ہوں گے۔ اس میں خرچہ بھی بڑھے گا اور تیل کی قیمت بھی بڑھے گی۔اور فوری طور پر ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہوگا، کیونکہ تیل کی پیداوار بڑھانے میں کافی وقت لگتا ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روس تقریبا دس ملین بیرل تیل روز انہ پیدا کرتا ہے جس میں سے اپنی ضرورت کا تیل نکال کر تقریبا ساڑھے سات ملین بیرل روزانہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اگر دنیا میں روزانہ خرچ ہونے والے تیل میں سےساڑھے سات ملین بیرل کی کمی ہو جائے تو یہ کمی پوری کیسے ہو گی؟ اور یہی سوال دبئی میں اٹلانٹک کونسل گلوبل انرجی فورم میں اس ہفتے تقریر کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے توانائی کے وزیر سہیل المزروی نے اٹھایا تھا۔

امریکہ نے یورپ کے لیے مائع گیس کی فراہمی میں اضافے کا وعدہ کیا ہے۔ اس میں اس سال کے آخر تک کا وقت درکار ہو گا اور اعدادوشمار کے مطابق وہ اس گیس کی مقدار کی صرف چوبیس فیصد ہو گی جو اس وقت روس یورپ کو فراہم کر رہا ہے۔

تیل کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری اور خاصے وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات یا تیل پیدا کرنے والا کوئی اور ملک، اس کو پیداوار بڑھانے کا عمل شروع کرنے میں ماہرین کے مطابق اس لیے تامل ہے کہ وہ سرمایہ کاری شروع کردیں اور یوکرین کی جنگ ختم ہو جائے اور روس پر پابندیاں ختم ہو جائیں تو وہ اپنا اضافی تیل کہاں کھپائیں گے۔

چنانچہ یہ ایک مشکل صورت حال ہے اورمسعود ابدالی کے بقول روس پر عائد پابندیوں کو اگر کامیاب بنانا ہے تو یورپ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

دوسری جانب روس اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ اب چونکہ تعزیرات کی وجہ سے ڈالر میں کاروبار ہو نہیں سکتا اس لیے وہ یورپ یا فی الحال کم از کم جرمنی کو اس بات پر مجبور کردے کہ وہ اسے روبل میں ادائیگی کرے اور اگر کسی مرحلے پر ایسا ہو گیا تو بتدریج ڈالر کی متبادل ایک کرنسی وجود پا جائے گی۔ جو ڈالر کی قدر میں عالمی سطح پر کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ فی الحال زیادہ مشکل روس کے لیے ہے کہ پابندیوں کے سبب اگر اس کی تیل کی تجارت رک جاتی ہے تو اس کے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ ساتھ یوکرین کی جنگ کے اخراجات اس کی معشیت پر گہرے اثرات ڈالیں گے۔ لیکن مشکلات مغربی اتحادیوں کے لیے بھی کم نہیں ہوں گی، جن کو فوری طور پر توانائی کی شدید قلت کا سامنا رہے گا۔

XS
SM
MD
LG