رسائی کے لنکس

شام: مشرقی غوطہ پر سرکاری فوج کا قبضہ مکمل


آٹھ اپریل 2018ء کو لی جانے والی اس تصویر میں شامی فوج کا ایک ٹینک مشرقی غوطہ میں داخل ہو رہا ہے۔
آٹھ اپریل 2018ء کو لی جانے والی اس تصویر میں شامی فوج کا ایک ٹینک مشرقی غوطہ میں داخل ہو رہا ہے۔

معاہدے کے تحت گزشتہ چند روز کے دوران 13500 باغی جنگجووں اور ان کے اہلِ خانہ کو دوما سے شمالی شام میں واقع باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں کی جانب جانے کے لیے محفوظ راہداری دی گئی۔

روس نے کہا ہے کہ دمشق کے نواح میں باغیوں کے زیرِ قبضہ آخری علاقہ بھی مکمل طور پر شامی حکومت کے کنٹرول میں آگیا ہے جس کے بعد علاقے میں شامی پرچم لہرادیا گیا ہے۔

روس کی وزارتِ دفاع کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرقی غوطہ میں باغیوں کے زیرِ قبضہ آخری علاقے دوما پر بھی شامی حکومت کا کنٹرول بحال ہوگیا ہے جس کے بعد وہاں صورتِ حال "معمول" پر آرہی ہے۔

دوما وہی قصبہ ہے جہاں ہفتے کے روز شامی حکومت کی جانب سے مبینہ کیمیائی حملے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جن میں لگ بھگ 60 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کے بعد سے شام کے معاملے پر امریکہ اور روس میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی ہے اور خدشہ ہے کہ اس حملے کے جواب میں امریکہ عن قریب شامی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

روس نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی کارروائی سے باز رہے۔

مشرقی غوطہ دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع باغیوں کے زیرِ قبضہ واحد آخری علاقہ تھا جس پر کنٹرول صدر بشار الاسد کی حکومت کی انا کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ علاقے پر قبضے کے لیے شامی فوج نے رواں سال فروری میں پیش قدمی شروع کی تھی۔

عالمی برادری کی شدید مخالفت اور تنقید کے باوجود مشرقی غوطہ پر قبضے کی کارروائی میں شامی سکیورٹی فورسز کو روس کی بھرپور فضائی مدد حاصل رہی۔
عالمی برادری کی شدید مخالفت اور تنقید کے باوجود مشرقی غوطہ پر قبضے کی کارروائی میں شامی سکیورٹی فورسز کو روس کی بھرپور فضائی مدد حاصل رہی۔

شامی فوج کے مسلسل محاصرے کی وجہ سے علاقے میں ضروریاتِ زندگی اور ادویات کی بھی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی جس کے باعث علاقے میں پھنسے لگ بھگ ایک لاکھ عام افراد انتہائی مشکل میں زندگی گزار رہے تھے۔

علاقے پر کنٹرول کے لیے شامی فوج کی کئی ماہ جاری رہنے والی کارروائی کے دوران علاقے پر بلا امتیاز بمباری میں سیکڑوں عام شہریوں کی ہلاکت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی کئی شکایات بھی سامنے آئی تھیں۔

عالمی برادری کی شدید مخالفت اور تنقید کے باوجود مشرقی غوطہ پر قبضے کی کارروائی میں شامی سکیورٹی فورسز کو روس کی بھرپور فضائی مدد حاصل رہی۔

مشرقی غوطہ کے بیشتر علاقے پر قبضے کے بعد علاقے میں موجود باغی اور ان کے اہلِ خانہ دمشق کے مشرق میں واقع دوما نامی قصبے میں محصور ہوگئے تھے جن کے انخلا کے لیے روسی فوج اور باغیوں کے درمیان گزشتہ ماہ معاہدہ طے پایا تھا۔

مشرقی غوطہ میں پھنسے باغیوں اور عام شہریوں کو ایک معاہدے کے تحت انخلا کی اجازت دی گئی تھی۔
مشرقی غوطہ میں پھنسے باغیوں اور عام شہریوں کو ایک معاہدے کے تحت انخلا کی اجازت دی گئی تھی۔

معاہدے کے تحت گزشتہ چند روز کے دوران دوما سے 13500 باغی جنگجووں اور ان کے اہلِ خانہ کو شمالی شام میں واقع باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں کی جانب جانے کے لیے محفوظ راہداری دی گئی۔

روس کی وزارتِ دفاع کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دوما میں رہ جانے والے مزید 1500 افراد قصبے سے نکل گئے ہیں جس کے بعد علاقے پر شامی حکومت کی عمل داری بحال ہوگئی ہے۔

تاہم بشار الاسد کی حکومت نے اب تک اس کی تصدیق یا ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے کہ شامی فوجی دستے دوما میں داخل ہوگئے ہیں۔

روسی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ علاقے پر سرکاری فوج کا کنٹرول ہوجانے کے بعد دوما کی ایک اونچی عمارت پر شام کا پرچم لہرادیا گیا ہے۔

سن 2016 میں مشرقی حلب سے حکومت مخالف جنگجووں کے انخلا کے بعد یہ صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی سب سے بڑی شکست ہے۔

XS
SM
MD
LG