روس نے امریکہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا وہ معاہدہ معطل کردیا ہے جس سے امریکہ نے گزشتہ روز دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ اور روس کے درمیان 1987ء میں طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں ملک یورپ میں کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائل نصب نہ کرنے کے پابند ہیں۔
معاہدے کی معطلی کا اعلان ہفتے کو روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے ملک کے وزیرِ خارجہ اور دفاع کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران کیا جو ٹی وی پر نشر کی گئی۔
ملاقات میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ "ہمارے امریکی شراکت داروں نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ لہذا ہم بھی یہ معاہدہ معطل کرتے ہیں۔"
ساتھ ہی صدر پوٹن نے اعلان کیا کہ معاہدے کی معطلی کے بعد روس ہائپر سونک سمیت نئے میزائلوں کی تیاری شروع کرے گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ جب تک امریکہ اپنے میزائل اور جوہری صلاحیت کے حامل ہتھیار یورپ یا کسی دوسرے خطے میں نصب نہیں کرتا، روس بھی ایسا نہیں کرے گا۔
روسی صدر نے اجلاس میں موجود وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق کوئی مذاکرات نہ کریں۔
اپنی گفتگو میں صدر پوٹن نے امریکہ پر روس کی مفاہمتی پیشکشوں کا جواب دینے میں تاخیر کا الزام بھی عائد کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران روس نے بارہا ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر بامقصد مذاکرات کا سوال اٹھایا ہے لیکن ان کے بقول، "ہم نے دیکھا ہے کہ فریقِ مخالف نے ہماری پہل کا مثبت جواب نہیں دیا۔"
اس سے قبل جمعے کو ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ ہفتہ ،دو فروری کو ماسکو کو باضابطہ طور پر آگاہ کردے گا کہ وہ اس معاہدے سے الگ ہونا چاہتا ہے۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ روس کے پاس معاہدے پر مکمل اور قابلِ تصدیق عمل کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت ہے جس کے دوران اسے معاہدے سے متصادم اپنے میزائل، ان کے لانچرز اور متعلقہ آلات تلف کرنا ہوں گے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ اگر روس معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو امریکہ معاہدے سے دستبردار ہونے کے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرسکتا ہے۔
امریکہ ایک عرصے سے روس پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا آ رہا تھا لیکن روس ایسے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
امریکہ کی جانب سے معاہدے سے دستبرداری کے اعلان پر یورپی ملکوں اور چین نے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا اور امریکہ اور روس پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے اختلافات بات چیت سے حل کریں۔