روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے ایران کو روسی ساختہ جدید میزائل دفاعی نظام 'ایس – 300' فراہم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔
روسی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق صدر پیوٹن نے پیر کو ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ایران کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نظام کی فروخت پر ستمبر 2010ء میں عائد کی جانے والی پابندی اٹھا لی گئی ہے۔
اس سے قبل روسی حکومت نے پیر کو تصدیق کی تھی دونوں ملکوں کے درمیان تیل کے بدلے مصنوعات کی تجارت بھی گزشتہ ایک برس سے جاری ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ روس ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لارہا ہے اور دو طرفہ تجارتی تعلقات میں اضافے کا خواہاں ہے۔
روسی حکومت کے یہ دونوں اعلانات چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر طے پانے والے عبوری معاہدے کے محض چند روز بعد سامنے آئے ہیں۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ایران اور 'پی5+1' میں شامل ملکوں – امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی – کے درمیان جوہری معاہدے کے فریم ورک پر اتفاقِ رائے کے بعد ایران کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد روس اور عالمی برادری کی پابندیوں "غیر متعلق" ہوگئی ہیں۔
اس سے قبل روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریباکووف نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ روس ایران کےساتھ پہلے سے موجود اشیا کے تبادلے کے ایک معاہدے کے تحت اسے اناج، آلات اور تعمیراتی ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔
'رائٹرز' نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے مذکورہ معاہدہ لگ بھگ ایک سال قبل طے پایا تھا جس کی مالیت 20 ارب ڈالر ہے۔
معاہدے کے تحت روس ایران سے پانچ لاکھ بیرل تیل روزانہ خرید رہا ہے جس کی قیمت اناج اور روسی مصنوعات اور آلات کی صورت میں ادا کی جارہی ہے۔
لیکن دونوں ملکوں کے درمیان مذکورہ معاہدہ طے پانے کے بارے میں کبھی کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اور دونوں ملکوں کے حکام اس بارے میں متضاد آرا کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ روس کے ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار نے نہ صرف معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی کیا جارہا ہے۔
روسی نائب وزیرِ خارجہ نے پیر کو ماسکو میں روسی پارلیمان کے ایوانِ بالا کے ارکان کو ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے پر بریفنگ کے دوران بتایا کہ تیل کے بدلے اشیا کے معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تجارت ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی تیل کے بدلے روس اپنی بعض مصنوعات تہران کو فروخت کر رہا ہے جن پر بین الاقوامی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
سرگئی ریباکووف نے کہا کہ روس کو امید ہے کہ ایران کے لیے اس کی حمایت کا نتیجہ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون پر منتج ہوگا۔
انہوں نے روس کا یہ موقف دہرایا کہ ایران کےساتھ حتمی جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد ایران پر ہتھیاروں کی خریداری پہ عائد بین الاقوامی پابندیاں بھی فوراً اٹھائی جانی چاہئیں۔