شام میں جاری بحران کے حل کے لیے روس، ایران اور ترکی کے صدور کا ایک اہم اجلاس جمعرات کو ماسکو میں ہور ہا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کی میزبانی میں بحیرۂ اسود کے کنارے واقع سیاحتی شہر سوچی میں ہونے والے اس سہ فریقی اجلاس کے شرکا شام کے بحران کے حل کی کوششوں پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
اجلاس سے قبل روسی صدر اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان کے درمیان علیحدہ ملاقات بھی ہوگی جس میں باغیوں کے زیرِ قبضہ شامی صوبے ادلب کے مستقبل پر غور کیا جائے گا۔
روس اور ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے اتحادی ہیں جب کہ ترکی اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
شام کے بحران کے حل کے لیے تینوں ملکوں کے مابین حالیہ دنوں میں تعاون اور رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2017ء کے بعد سے شام کی صورتِ حال پر تینوں سربراہانِ مملکت کا یہ چوتھا اجلاس ہوگا۔
یہ تینوں ممالک اقوامِ متحدہ، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے شام کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کے متبادل اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن تاحال کوئی بھی فریق تنازع کا قابلِ قبول حل پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
تینوں سربراہانِ مملکت آخری بار گزشتہ سال ستمبر میں ایران میں ملے تھے جس کے بعد انہوں نے شام کے مستقبل کے بارے میں اپنے درمیان موجود اختلافات کا سرِ عام اعتراف کیا تھا۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ جمعرات کو ہونے والے سربراہی اجلاس میں صدر ولادی میر پوٹن، صدر ایردوان اور صدر حسن روحانی ایک خصوصی کمیٹی کے قیام کی تجویز پر بات چیت کریں گے جسے شام کے نئے آئین کی تیاری کا کام سونپا جائے گا۔
گزشتہ سال دسمبر میں اقوامِ متحدہ نے اعتراف کیا تھا کہ وہ شام کے نئے آئین کی تیاری کے لیے مجوزہ کمیٹی کے قیام کی کوششوں میں ناکام رہی ہے۔
عالمی ادارے نے کہا تھا کہ کمیٹی قائم نہ ہونے کی بڑی وجہ اس کے مجوزہ ارکان کے ناموں پر دمشق حکومت کے اعتراضات ہیں۔
البتہ بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں روس کے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ روس، ایران اور ترکی اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اس پر کام جاری رکھیں گے۔