رسائی کے لنکس

ادلب میں شامی جارحیت، ترکی کا روس اور ایران پر اظہارِ برہمی


ترکی کی جانب سے چوکنہ رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے، ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’روس اور ایران کو چاہیئے کہ وہ حکومت شام کو روکیں۔ ضمانت دار ملکوں کے طور پر اُنھیں اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں‘‘۔

ادلب کےباغیوں کے گڑھ میں حکومت شام کی جانب سے جاری جارحانہ فوجی انداز اپنانے کو بند کرنے میں ناکامی پر ترکی نے روس اور ایران کی مذمت کی ہے، جس کے نتیجے میں شام کے تنازعے پر ترکی کی جانب سے ایران اور روس کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے امکان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

ترکی کی جانب سے چوکنہ رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے، ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’روس اور ایران کو چاہیئے کہ وہ حکومت شام کو روکیں۔ ضمانت دار ملکوں کے طور پر اُنھیں اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں‘‘۔

ترکی نے منگل کے روز ایرانی اور روسی سفیروں کو طلب کیا اور اس معاملے پر سرکاری طور پر احتجاج کیا۔

آستانہ عمل کے سمجھوتے کے حصے کے طور پر، ترکی، ایران اور روس نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ وہ ادلب میں ’’کشیدگی سے پاک علاقہ‘‘ قائم کریں گے۔

منصوبے کی ایک شق کی رو سے، ترکی نے حکومت شام کی افواج اور باغیوں کے بیچ جنگ بندی کی نگرانی کے لیے محصور علاقے میں ترک فوجی تعینات کیے تھے۔ شام اور روس ادلب میں موجود جہادی گروپوں کو سمجھوتے میں شامل خیال نہیں کرتے۔

ادلب ترکی اور شام کی سرحد پر واقع ہے, جہاں شام کی جانب سے جارحانہ انداز اپنانے پر ترکی کو شکایت ہے۔

ایک سابق ترک سفارت کار، جنھوں نے اس علاقے میں خدمات انجام دی ہیں، کہا ہے کہ ’’ادلب میں 20 لاکھ کے لگ بھگ شامی آباد ہیں، جس سے خدشہ اس بات کا ہے کہ (ترکی کی جانب) مزید لوگ بھاگ کھڑے ہوں گے، چونکہ ادلب میں اس وقت بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو شام کے دیگر مقامات سے منتقل ہو کر عارضی قیام کر رہے ہیں۔ وہ کہیں اور نہیں جا سکتے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ وہ اسد کے ساتھ کوئی معاہدہ طے کر سکیں گے۔ اس لیے، اُن کا انخلا عین ممکن ہے‘‘۔

XS
SM
MD
LG