روس کے صدر دمیتری میدویدیف نے کہا ہے کہ اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
جمعرات کوجاری کیے گئے اپنےایک بیان میں روسی صدر نےاعتراف کیا کہ ان کے ملک کا انتخابی نظام غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔
تاہم صدرمیدویدیف کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہےکہ انتخابی نتائج روسی معاشرےکے سیاسی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں اور، ان کے بقول، انتخابی مبصرین نے بھی انتخابات کے بہتر انداز میں انعقاد کا اعتراف کیا ہے۔
صدر نےروسی عوام سےاپیل کی کہ وہ انتخابی نتائج کی تحقیقات مکمل ہونےتک ضبط و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملہ پر احتجاج اس وقت تک ٹھیک ہےجب تک مظاہرین خود کو قانون کے دائرے میں رکھیں۔
اس سے قبل روسی وزیرِ اعظم ولادی میر پیوٹن نے الزام عائد کیا تھا کہ انتخابی نتائج کے خلاف حزبِ اختلاف کی جانب سے کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔
وزیرِاعظم پیوٹن کی جماعت 'یونائیٹڈ رشیا' پارٹی نے اتوار کو ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم پارلیمان میں اس کی اکثریت میں واضح کمی آئی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ روسی انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف۔
دریں اثنا روسی حزبِ اختلاف نے انتخابی نتائج کے خلاف دارالحکومت ماسکو میں آئندہ 10 روز کے دوران مزید چار بڑے احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے جن کا آغاز ہفتے کو حکومتی مرکز کریملن کے نزدیک مظاہرے سے کیا جائے گا۔
حکام نے ہفتے کے مظاہرے کے لیے صرف 300 افراد کے اجتماع کی اجازت دی ہے تاہم اب تک سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے 23 ہزار سے زائد افراد مظاہرے میں اپنی شرکت کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔
انتخابی نتائج کے خلاف روس میں حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کی زیرِ قیادت گزشتہ تین روز سے مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
عالمی مبصرین نے بھی انتخابات میں بڑے پیمانے پر بےقاعدگیوں اور بیلٹ بکس بھرنے کی نشان دہی کی ہے جبکہ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گورباچوف نے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔