روسی حکومت کی حمایت یافتہ 'متحدہ روس پارٹی' نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دوران ناقدین کی جانب سے تین روزہ انتخابی عمل میں ووٹنگ فراڈ، دھاندلی اور انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آتے رہے۔
مبصرین نے 2024 کے صدارتی انتخاب سے پہلے ان انتخابات کو صدر ولادمیر پیوٹن کی جانب سے اپنے اقتدار کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
یہ انتخابات اس لئے بھی متنازعہ قرار دیئے جا رہے ہیں، کیونکہ اس میں حکومت مخالف طبقوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔
روسی حکام نے جیل میں بند اپوزیشن لیڈر الیکسی نوالنی کو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے ان سے جڑی تمام تنظیموں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
روسی حکام کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے 28 سال میں پہلی بار یورپی سکیورٹی اور تعاون تنظیم کے مبصرین بھی پارلیمان کے لوئر ہاؤس، جسے روسی زبان میں 'ڈوما' کہا جاتا ہے، کے انتخابات کے دوران موجود نہیں تھے۔
نوے فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد روسی الیکشن کمیشن نے 49.66 فیصد ووٹوں کی برتری کے ساتھ صدر ولادیمیر پیوٹن کی پارٹی کو فاتح قرار دے دیا ہے۔
قریب ترین حریف کمیونسٹ پارٹی کو 19.56 فیصد ووٹ ملے جبکہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو 7.51 فیصد ووٹس مل پائے۔
انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کریملن کی حمایت یافتہ 'یونائیٹڈ رشیا' یا 'متحدہ روس' پارٹی کے سیکرٹری جنرل آندرے تورچاک نے انتخابی عمل کو صاف اور شفاف قرار دیا۔
پیوٹن مخالف راہنما نوالنی کے ایک قریبی ساتھی نے الزام لگایا ہے کہ ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ جیسے شہروں جہاں لبرلز کی اکثریت پائی جاتی ہے، یہاں آن لائن ووٹنگ کے نظام کو حکومت کے حق میں استعمال کرنے کے لئے جوڑ توڑ کیا گیا۔
'ڈوما' کی 450 سیٹوں میں اکثریت حاصل کرنے والی متحدہ روس پارٹی اپنی امتیازی برتری تو قائم رکھے گی مگر یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ عوام میں غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ کئی آزاد پولز کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں جب یہ پارٹی پہلی بار منظرعام پر آئی تھی، اس وقت اس کی مقبولیت اپنی کم ترین سطح پر ہے۔
2016 کے انتخابات میں متحدہ روس کو 54 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
موجودہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹر ٹرن آؤٹ 45 فیصد رہا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بہت سے روسی شہری انتخابی عمل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ووٹ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
سمارٹ حکمت عملی اور سمارٹ ووٹنگ ایپ
موجودہ حکومت کے سخت ناقد اور کرپشن مخالف کارکن الیکسی نوالنی اور ان کے اتحادیوں نے متحدہ روس پارٹی کا زور توڑنے کے لئے اسمارٹ حکمت عملی تیار کی تھی۔ اس حکمت عملی کے تحت مختلف حکومت مخالف امیدواروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس مقصد کے لئے ایک ایپ تیار کی گئی تھی جس میں شہری اپنے گھر کا پتہ ڈالنے کے بعد یہ جان سکتے تھے کہ اسمارٹ حکمت عملی ان کے علاقے سے کس امیدوار کو سپورٹ کر رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ امیدوار کمیونسٹ ہو، اسٹالنسٹ یا پھر لبرل، ووٹر کو اسمارٹ حکمت عملی کے تحت متحدہ روس مخالفت میں صرف اس کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دینا تھا۔
حالیہ چند مہینوں میں حکومت کے الیکسی نوالنی کے نیٹ ورک پر کریک ڈاؤن کے بعد ان کے کئی اتحادی یا حراست میں لے لئے گئے تھے، نظر بند تھے یا پھر جلا وطنی اختیار کر گئے تھے۔
سترہ ستمبر کو ووٹنگ کا عمل شروع ہوتے ہی نوالنی کی سمارٹ ووٹنگ ایپ ایپل اور گوگل پلے اسٹور سے غائب ہوگئی۔ سوشل چیٹ ایپ ٹیلیگرام پہ صارفین کے لئے اس کی بوٹ سروس بند کر دی گئی۔ سمارٹ حکمت عملی کے یوٹیوب چینل پر امیدواروں کے ناموں والی ویڈیو غائب ہوگئی، حتیٰ کے نوالنی کے نیٹورک کی جانب سے تیار کردہ گوگل کی جانب سے گوگل ڈوک دستاویز تک، جس پر حکومت مخالف اتحاد کے امیدواروں کے نام تھے، صارفین کی رسائی روک دی گئی۔
نوالنی کے نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی تقریباً پچاس ویب سائٹس بھی تا حال بند ہیں۔
اپوزیشن کمیونسٹ پارٹی نے انتخابی دھاندلیوں اور خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیلٹ بکسوں میں ووٹ بھرے جانے کی خبروں کا جواب دے۔
انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے ایک آزاد ادارے گولوس کے مطابق انتخابات کے پہلے دن ووٹنگ کے لئے طویل قطاریں نظر آئیں۔ گولوس کے مطابق حکومتی ملازمین اور فوجی افسران پر حکومت کی جانب سے زور دیا گیا تھا کہ وہ 'متحدہ روس پارٹی' کو ووٹ دیں۔
گولوس نے کم از کم دو ہزار انتخابی بے ضابطگیاں رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ، بیلٹ بکسوں کی حفاظت کو نظر انداز کرنے، ایک نام پر کئی ووٹ ڈالے جانے اور بیلٹ بکس جعلی ووٹوں سے بھرے جانے کے درجنوں واقعات ریکارڈ کئے ہیں۔
[یہ خبر ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی، کرنٹ ٹائم، میڈوزا، ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز کی خبروں سے ماخوذ ہے]