رسائی کے لنکس

صبیحہ خانم فن کی دنیا میں لوٹنا چاہتی ہیں


صبیحہ خانم فن کی دنیا میں لوٹنا چاہتی ہیں
صبیحہ خانم فن کی دنیا میں لوٹنا چاہتی ہیں

گزرتے وقت کے ساتھ ماضی کا حصہ بن جانے والایہ چہرہ آج بھی ہماری یادوں میں کہیں نہ کہیں موجود ہے ، اور کیوں نہ ہو ،ایک زمانے میں یہ چہرہ پاکستان فلم انڈسٹری کی پہچان تھا۔
50 اور 60کی دہائی میں جب پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی تھی، صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی جوڑی پردہ ِ سکرین پر ہی نہیں ، لوگوں کے دلوں میں بھی جگہ بنا چکی تھی۔

پنجاب کے شہر گجرات سے تعلق رکھنے والی مختار بیگم فلمی دنیا میں آمد کے بعد صبیحہ خانم کہلائیں ۔ بچپن نانا کے گھر گزرا جہاں مذہب کو بہت اہمیت حاصل تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں میں آنے کے بعد انہیں اپنے خاندان والوں کی بھرپور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔

وہ کہتی ہیں کہ جب میں فلموں میں آئی اور اتفاق سے میری پہلی ہی مووی اتنی کامیاب ہوئی اور ایکد م شور مچ گیا تو ظاہر ہے کہ لوگ شکل تو پہچانتے تھے ۔ خاندان والوں کو پتہ لگا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس کو مار ڈالیں گے۔

سید موسی رضا ، جنہیں اس دور کی پاکستانی فلم کے شائقین سنتوش کمار کے نام سے جانتے تھے ، جلد ہی فلم کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی میں بھی صبیحہ خانم کے شریک سفر بن گئے ۔

صبیحہ خانم کا کہناہے کہ ہم دونوں ایکدوسرے کو پسند بھی کرتے تھے مگر ہم ایک دوسرے کی عزت بہت کرتے تھے۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر اپنی پسند کااظہار کر سکے ۔ یوں ان کے والدین نے ان کی شادی طے کردی ۔اور وہ شادی ہو بھی گئی۔

سنتوش کمار کی یہ دوسری شادی تھی ، جس کی وجہ سے صبیحہ کو اپنے والد کی جانب سے اس شادی پر مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

صبیحہ کہتی ہیں کہ سنتوش کمار سے شادی ان کی زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ تھا۔ بطور شوہر تو بہت ہی عظیم انسان تھے۔ انسان اتنا اچھا آدمی کہ جیسے ہم لوگ کہتے تھے کہ ایک ٹوکرا ہو اس کے اندر سارے جو چھوٹے چھوٹے چوزے ہوتے ہیں ، اس طرح انہوں نے اپنے خاندان کو سنبھالا ہوا تھا ۔

صبیحہ خانم کا اداکاری کا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 1987ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ گذشتہ بہت عرصے سے فلمی دنیا سے دور ہونے کے باوجود آج بھی اس زمانے کی یادیں صبیحہ خانم کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم لوگ تو اتنے اتنے دن شوٹنگ کرتے تھے کہ آخر میں نیند آ رہی ہوتی تھی۔ برف کی ڈلیاں لے لے کر آنکھوں پر لگا رہے ہوتے تھے ۔جب ہماری فلم عشق ِ لیلی بنی تو اس کی شوٹنگ کے دوران مجھے اپنڈیکس کا اتنا سخت درد ہوا کہ میرے ڈاکٹر نے کہا کہ اسکا شوٹنگ کرنا رسک ہے، مگر میں نےاسی درد کے ساتھ صحرا میں شوٹنگ مکمل کی۔

وہ کہتی ہیں کہ مجھے ٹی وی پر دوبارہ معین اختر لائے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، وہ بہت اچھے انسان تھے۔ ان کی وجہ سے میں نے دوبارہ کام کرنا شروع کیاسٹیج پر۔

آج بھی ان کی زندگی کی ہر یاد اور ہر بات ان کے مرحوم شوہر سے جڑی دکھائی دیتی ہے ۔ ان کے دن کا بہت سا حصہ اپنے مرحوم شوہر کے لئے قرآن کی تلاوت میں گزرتا ہے ۔

گذشتہ کئی سالوں سے امریکہ میں رہنے کے باعث صبیحہ خانم کو اب امریکہ بھی اپنا دوسرا وطن لگتا ہے ۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی دھڑکتا ہے۔ اب جبکہ وہ اپنے بچوں کی تمام ذمہ داریاں ادا کرچکی ہیں ، صبیحہ خانم ایک بار پھر پاکستان واپس جا کرٹیلی ویژن اور فلم کے شعبے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں ۔

وہ کہتی ہیں کہ میرے سارے بچے اپنی اپنی جگہ پر سیٹل ہو گئے ہیں اور مجھے ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اب میں واپس جا کر آرام سے کام کر سکتی ہوں۔ میں ضرور ٹی وی ڈراموں میں کام کرنا چاہوں گی۔

XS
SM
MD
LG