جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے مشہور الیکٹرانک کمپنی 'سام سنگ' کے سربراہ کو رشوت ستانی کا الزام ثابت ہونے پر پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔
کمپنی کے ارب پتی سربراہ جے وائے لی پر الزام تھا کہ انہوں نے جنوبی کوریا کی سابق صدر پارک گیون ہائی سے مراعات کے حصول کے لیے ان کی ایک قریبی دوست کو رشوت دی تھی۔
مذکورہ اسکینڈل کے باعث پارک گیون ہائی کو صدارت چھوڑنا پڑی تھی اور وہ بھی اس وقت اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔
سام سنگ کے 49 سالہ سربراہ کے خلاف مقدمہ گزشتہ چھ ماہ سے دارالحکومت سول کی ایک عدالت میں چل رہا تھا جس نے جمعے کو اپنے فیصلے میں جے وائے لی پر عائد بیرونِ ملک اثاثے چھپانے، غبن اور جعل سازی کے الزامات بھی درست قرار دے دیے ہیں۔
جے وائے لی کو جنوبی کوریا کے حکام نے رواں سال فروری میں گرفتار کیا تھا لیکن وہ خود پر عائد تمام الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
لی کے ایک وکیل سونگ وو چیول نے کہا ہے کہ ان کے موکل عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ ناقابلِ قبول ہے اور انہیں امید ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ان کے موکل کی بے گناہی ثابت ہوجائے گی۔
جنوبی کوریا کے قانون کے تحت تین سال سے زائد مدت کی قید کی سزائوں میں تخفیف نہیں ہوسکتی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جنوبی کوریا کی کسی عدالت نے کسی بڑی کاروباری شخصیت کو اتنی طویل سزا سنائی ہے۔
سول کی سینٹرل ڈسٹرکٹ کورٹ نے اپنے فیصلےمیں قرار دیا ہے کہ 'سام سنگ' کی جانب سے صدر پارک کی قریبی دوست چوئی سون سِل کے اداروں کو دی جانے والی مالی امداد رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔
استغاثہ کے مطابق ان عطیات کے بدلے میں 'سام سنگ' جنوبی کوریا کی حکومت سے اپنی دو ذیلی کمپنیوں کے 2015ء میں ہونے والے متنازع ادغام کی حمایت چاہتی تھی جس کے نتیجے میں جے وائے لی کی سام سنگ گروپ پر گرفت مزید مضبوط ہوگئی تھی۔
لی کے وکلا نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ دونوں کمپنیوں کا ادغام کاروباری تقاضوں کے مطابق اور شفاف انداز میں ہوا تھا جسے عدالت نے تسلیم نہیں کیاتھا۔
سام سنگ کی بنیاد جے وائے لی کے دادا نے 1938ء میں رکھی تھی۔ پچاس کی دہائی میں جنگِ کوریا کے بعد جنوبی کوریا کی ترقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی پیش رفت میں سام سنگ کا بنیادی کردار رہا ہے۔