|
اسلام آباد — سعودی عرب نے افغانستان میں اپنا سفارتی مشن بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب نے تین سال قبل افغانستان میں اپنا سفارتی مشن اُس وقت بند کر دیا تھا جب امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کا انخلا جاری تھا اور طالبان تیزی سے ملک پر قابض ہو رہے تھے جس سے افراتفری کا ماحول تھا۔
سعودی عرب کے کابل میں سفارت خانے سے اتوار کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام کو خدمات کی فراہمی کے لیے سعودی عرب کی حکومت کی خواہش پر کابل میں سعودی مشن اپنی سرگرمیوں کی دوبارہ بحالی کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کابل میں سعودی عرب کے سفارتی مشن کے ارکان کی تعداد کیا ہو گی۔
طالبان حکومت نے کابل میں سعودی سفارت خانہ دوبارہ بحال ہونے کا خیر مقدم کیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان حکام نے سعودی عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
طالبان کے نائب ترجمان ضیا احمد نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ کابل میں سعودی سفارت خانہ بحال ہونے کے بعد سعودی عرب میں مقیم افغان شہری بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔
واضح رہے کہ کابل میں سعودی عرب کا سفارت خانہ فعال نہ ہونے کے سبب افغانستان سے حج اور عمرے کے لیے جانے والے شہریوں کو اسلام آباد سے ویزے جاری کیے جا رہے تھے۔
سعودی عرب نے نومبر 2021 میں کابل میں قونصلر سروسز دوبارہ شروع کر دی تھیں جب کہ افغانستان میں سعودی ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر بھی شہریوں کو انسانی بنیادوں پر مدد کر رہا ہے۔
طالبان کے افغانستان میں اقتدار کو تین برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران وہاں ان کی عبوری حکومت بھی قائم ہے۔ البتہ کسی بھی ملک نے تاحال افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغانستان میں جب 1996 کے بعد طالبان پہلی بار حکومت میں آئے تھے تو تین ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن طالبان کی یہ حکومت 2001 میں افغانستان پر غیر ملکی افواج کے حملے کے بعد ختم ہو گئی تھی۔
'افغان عوام کو فائدہ ہو گا'
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق مستقبل مندوب آصف درانی کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی کابل میں اپنی سفارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنا اچھی پیش رفت ہے۔
اُن کے بقول دنیا اب اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ایک حقیقت ہے جس کے ساتھ ہی کام کرنا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کابل میں سعودی سفارت خانے کی بحالی سے افغان عوام کو بہت فائدہ ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب یا چین کے افغان طالبان سے بڑھتے تعلقات سے پاکستان کو کوئی تشویش نہیں ہے اور نہ ہی اسلام آباد کی افغان پالیسی اس سے کمزور ہوتی ہے۔
آصف درانی نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان سے سنجیدہ تحفظات ہیں جو دور ہونے چاہئیں جس میں خاص طور پر سیکیورٹی کے معاملات ہیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ سیکیورٹی کے اس قسم کے تحفظات چین، ایران، روس، آذربائیجان اور خطے کے دیگر ممالک کے بھی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بنا پر دو طرفہ تعلقات کو منجمد کر دیا جائے۔
آصف درانی نے کہا کہ طالبان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے سیکیورٹی خدشات کو دور کریں اور اگر وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش جیسی تنظیموں کے خاتمے کی طاقت نہیں رکھتے تو عالمی اداروں اور خطے کے ممالک سے مدد لیں۔
'طالبان متحرک سفارت کاری سے خطے میں تعلقات بڑھا رہے ہیں'
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کہتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت کے لیے یہ اچھی پیش رفت ہے کہ خطے کے ممالک سے ان کے تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کابل پر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد صرف چند ممالک پاکستان، ایران، روس کے سفارت خانے رہ گئے تھے اور دیگر زیادہ تر ممالک نے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلوا لیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں طالبان حکومت نے نہ صرف سیکیورٹی اور امن و امان کو بہتر کیا ہے بلکہ خطے کے ممالک نے ساتھ متحرک سفارت کاری کے ذریعے تعلقات کو بھی بہتر بنایا ہے۔
منصور احمد خان کے بقول اپنی متحرک سفارت کاری کی بدولت افغان طالبان چین، امارات اور ازبکستان جیسے اہم ممالک کے سفارت خانے اور سفیر لانے میں کامیاب رہا اور سعودی عرب کا کابل میں سفارتی سرگرمیاں شروع کرنا بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب مسلم دنیا کا اہم ملک ہے اور وہ طالبان حکومت کے باقی دنیا سے تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
'پاکستان کو بھی اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنا ہو گا'
منصور احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کو بھی ان حالیہ اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح دیگر ممالک طالبان حکومت سے شکایات کے باوجود تعلقات بڑھا رہے ہیں۔
اُن کے بقول ٹی ٹی پی اور سرحدی دہشت گردی جیسے مسائل کے لیے بھی افغانستان سے دو طرفہ بات چیت کے چینلز کو بحال کیا جانا چاہیے اور ایک جامع ایجنڈے کے تحت بات چیت ہونی چاہیے۔
'پاکستان افغانستان کے ساتھ ہر معاملہ سیکیورٹی کے تناظر میں نہ دیکھے'
افغان امور کے ماہر طاہر خان کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے سیکیورٹی خدشات کی بنا پر گزشتہ سال سفارت خانہ بند کیا تھا اور اب ان کا خود اعلان کرنے کا مطلب ہے کہ سیکیورٹی خدشات نہیں رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کے لیے بھی اچھی خبر ہے کہ سعودی عرب جو اسلامی دنیا کا اہم ملک ہے اس کے خدشات ختم ہوئے اور ریاض نے اپنی سفارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔
طاہر خان کے بقول پاکستان کے سیکیورٹی خدشات جائز ہیں لیکن ہر معاملے کو سیکیورٹی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ ان کے بقول اسی طرح افغان طالبان کا یہ کہنا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی موجود نہیں، یہ بھی درست نہیں ہے۔
'افغانستان کے حوالے سے پاکستان تنہا نہیں ہو رہا'
آصف درانی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے افغان طالبان سے تعلقات بہت خراب ہیں بلکہ مسائل پر کابل سے مسلسل بات چیت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے خدشات کو بہر حال حل کرنا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیگر معاملات نہیں چل رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت افغانستان کے دیگر پانچ ہمسایہ ممالک سے بہت مختلف ہے۔
آصف درانی نے کہا کہ سعودی عرب یا چین کے کابل کے ساتھ بڑھتے تعلقات سے پاکستان تنہا نہیں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے مسائل کو خطے کے ممالک کی سطح پر حل کرنے کی حکمتِ عملی ابھی بھی کام کر رہی ہے۔ سیاسی سطح پر ساری دنیا ایک پیج پر ہے کہ افغان حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جائے گا جب کہ جب تک جامع حکومت قائم اور خواتین کی تعلیم جیسے مسائل حل نہیں ہوتے۔