سعودی عرب نے ایران کی جانب سے یمن پر عرب ملکوں کے فضائی حملے روکنے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران حکومت کو یمن کے بحران میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔
سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل نے اتوار کو دارالحکومت ریاض میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایران کو عرب اتحادیوں سے یمن میں جاری فوجی کارروائی روکنے کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی کارروائی کا مقصد یمن کی قانونی حکومت کی مدد کرنا ہے اور اس کارروائی کو روکنے کا ایرانی مطالبہ غیر ضروری ہے۔
سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایران یمن کے معاملات کا ذمہ دار نہیں لہذا اسے اس معاملے میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
سعودی وزیرِ خارجہ اپنے فرانسیسی ہم منصب لوغاں فبیوس کے ہمراہ پریس کانفرنس کر رہے تھے جنہوں نے اتوار کو سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک یمن میں استحکام کی بحالی کے لیے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے دورۂ سعودی عرب کا مقصد سعودی حکام کے لیے فرانس کی سیاسی حمایت کا اظہار کرنا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، مصر، اردن اور سوڈان سمیت اس کے درجن بھر اتحادی عرب ملکوں نے لگ بھگ دو ہفتے قبل یمن میں حوثی باغیوں پر فضائی بمباری شروع کی تھی تاکہ باغیوں کو یمن کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضے سے روکا جاسکے۔
حوثی باغی گزشتہ سال ستمبر سے دارالحکومت صنعا پر قابض ہیں لیکن انہوں نے گزشتہ ماہ جنوبی یمن کے شہر عدن کی جانب پیش قدمی شروع کردی تھی جہاں عرب اور مغربی ملکوں کے حمایت یافتہ یمنی صدر عبدربہ منصور ہادی اور ان کی حکومت کے وزرا پناہ گزین تھے۔
اتوار کو بھی عرب اتحادیوں کے طیاروں نے وسطی یمن کے شہر تعز میں باغیوں کے ایک مرکز پر بمباری کی جن میں کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق فوجی مرکز یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجی دستوں کے زیرِ استعمال تھا جو ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے اتحادی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق یمن میں جاری بحران اور لڑائی کے دوران اب تک 600 افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 2200 سے زائد ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یمن کے مختلف علاقوں میں حوثی باغیوں اور صدر ہادی کے حامی فوجی دستوں اور قبائلی لشکروں کے درمیان جاری لڑائی کے باعث لگ بھگ ایک لاکھ افراد بے گھر بھی ہوئے ہیں۔