ایک سعودی عدالت نے پیر کے روز خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک معروف خاتون لوجین الحتلول کو پانچ سال 10 مہینے قید کی سزا سنائی ہے۔ جیل کی اس سزا کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
الحتلول کی عمر 31 سال ہے اور وہ سن 2018 سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کم ازکم ایک درجن خواتین کے ساتھ حراست میں ہیں۔
یہ سزا سعودی عرب کے والی عہد محمد بن سلمان کے امریکہ کے منتخب صدر جو بائیدن کے ساتھ تعلقات کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے جو ریاض کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کر چکے ہیں۔
سعودی اخباروں سابق اور الشارک الاوصات نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ الحتلول کو یہ سزا ملک کے سیاسی نظام اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات پر دی گئی ہے۔
اخبار کے مطابق عدالت نے ان کی دو سال 10 مہینے کی سزا مشروط طور پر معطل کر دی ہے جب کہ وہ 15 مئی 2018 سے اب تک پہلے ہی حراست میں کافی عرصہ گزار چکی ہیں۔
جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ انہیں فروری 2021 کے آخر تک اس شرط پر رہا کر دیا جائے گا کہ اگر انہوں نے دوبارہ کوئی جرم کیا تو سزا کاٹنے کے لیے دوبارہ جیل بھیج دیا جائے گا۔
الحتلول کی بہن لینا نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ان پر پانچ سال تک سفر کرنے کی پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپ کے انسانی حقوق کے ماہرین اور قانون سازوں نے ان پر عائد الزامات کو بے بنیاد اور جعلی قرار دیتے ہوئے الحاتلول کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ الحتلول کی سزا انتہائی پریشان کن ہے۔ عالمی ادارے نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور ان کے خاندان نے کہا ہے کہ الحتلول نے خواتین کے لیے ڈرائیونگ کے حق اور ملک میں خواتین پر نافذ مرد کی سرپرستی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ انہوں نے انتظامیہ پر تشدد کرنے کے الزامات بھی لگائے تھے جسے سعودی حکام مسترد کر چکے ہیں۔
فوجداری عدالت نے گزشتہ ہفتے سماعت کے دوران الحتلول پر تشدد کے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اس کے شواہد پیش نہیں کیے گئے۔
الحتلول کو سزا ایک ایسے وقت سنائی گئی ہے جب تقریباً تین ہفتےقبل ریاض کی ایک عدالت نے رہائی کے لیے امریکی دباؤ کے باوجود ایک امریکی نژاد سعودی ڈاکٹر ولید فتیحی کو چھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر لگائے گئے الزامات کے متعلق انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی بنیادوں پر تھے۔
غیرملکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ان دو مقدموں کا مقصد ملک کے اندر اور باہر یہ پیغام بھیجنا ہے کہ سعودی عرب انسانی حقوق کے معاملات پر کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کرے گا۔
لوجین الحتلول اس وقت میڈیا میں نمایاں ہونا شروع ہوئیں جب انہوں نے 2013 میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کی مہم چلائی تھی۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ان خدشات کی بنا پر حراست میں لیا گیا تھا کہ وہ ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے اور بیرون ملک دشمن عناصر کی مدد کرنے کی مرتکب ہو رہی ہیں۔