سعودی عرب نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی ہلاک ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں دو اعلیٰ عہدے داروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
خشوگی 2 اکتوبر کو اپنے نجی کاغذات کے سلسلے میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے لیکن وہاں سے باہر نہیں نکلے اور پراسرار طور پر لا پتا ہو گئے۔
اس سے قبل سعودی حکام اس گمشدگی سے مسلسل لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے ہیں۔
خشوگی کی گمشدگی پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا اور امریکہ نے اس معاملے کی شفاف انداز میں تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف سخت ردعمل آ سکتا ہے۔
سعودی عرب نے ترک حکام کے ساتھ مل کر اس واقعہ کی تفتیش کرانے پر اتفاق کیا جس کے بعد ترک پولیس سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوئی اور کئی گھنٹوں تک وہاں تلاشی لی۔
ترک پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے ہاتھ ایسے شواہد لگے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خشوگی کو قونصلیٹ کے اندر سفاکی سے ہلاک کرنے کے بعد اس کی نعش ٹھکانے لگا دی گئی۔
اس سلسلے میں 15 ایسے سعودی ایجنٹوں کا بھی میڈیا میں تذکرہ ہوتا رہا جو گمشدگی کے روز سعودی عرب سے استنبول کے قونصل خانے پہنچے اور چند ہی گھنٹوں کے اندر واپس چلے گئے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قونصلیٹ کے اندر خشوگی کی چند لوگوں سے ملاقات ہوئی اور اس دوران ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ لڑائی کے دوران خشوگی مارا گیا۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں اور 18 سعودی باشندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک سینیر مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جینس کے ڈپٹی چیف احمد اسیری کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
دو اکتوبر کو خشوگی کی گمشدگی کے بعد پہلی بار سعودی حکومت نے خشوگی کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ اس سے قبل سعودی مسلسل یہ إصرار کرتے رہے کہ خشوگی قونصل خانے میں اپنی آمد کے کچھ ہی دیر کے بعد پچھلے دروازے سے باہر چلے گئے تھے۔ اور وہ نہیں جانتے کہ اس کے بعد وہ کہاں گئے یا ان کے ساتھ کیا ہوا۔
خشوگی ایک سعودی صحافی تھے اور وہ اپنی تحریروں میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر کڑی نکتہ چینی کرتے رہتے تھے۔