امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2 اکتوبر کو جب صحافی جمال خشوگی استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوا تو وہاں 15 سعودی ایجنٹ پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے اور انہوں نے منٹوں کے اندر اسے ہلاک کر ڈالا۔ سفاک ایجنٹوں نے اس کا سر کاٹا اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور اپنا کام مکمل کرنے کے بعد وہ دو گھنٹوں کے اندر قونصلیٹ کی عمارت سے چلے گئے۔
ایک سینئر ترک عہدے دار نے بدھ کے روز بتایا کہ قونصلیٹ کی آڈیو ریکارڑنگ سے کئی چیزوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ہلاک کرنے سے پہلے خشوگی پر شديد تشدد کیا گیا اور ان کی انگلیاں تک کاٹ دی گئیں۔
ترک میڈیا کے مطابق سعودی ایجنٹ خشوگی سے سوال جواب کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر سفاکانہ تشدد بھی کر رہے تھے جس دوران اس کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔
جمال خشوگی ایک عرصے سے امریکی ریاست ورجینیا میں رہ رہے تھے اور واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے۔ وہ اپنی تحریروں میں سعودی حکمرانوں پر سخت نکتہ چینی کرتے تھے، جس کی وجہ سے سعودی حکومت ان سے ناراض تھی۔
خشوگی اپنی بیوی کی طلاق کے کاغذات بنوانے کے لیے استنبول میں سعودی قونصلیٹ گئے تھے تاکہ وہ اپنی گرل فرینڈ سے شادی کر سکیں۔ ترکی کے سفر میں خشوگی کی گرل فرینڈ بھی ان کے ساتھ تھی اور وہ قونصلیٹ کے دروازے تک ان کے ساتھ آئی۔ قونصلیٹ میں جاتے ہوئے وہ اپنا موبائل فون اپنی گرل فرینڈ کو دے گئے۔
گرل فرینڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گیارہ گھنٹوں تک خشوگی کی واپسی کا انتظار کیا اور اس کے بعد وہ واپس آ گئی۔
سعودی قونصلیٹ نے مسلسل یہ اصرار کیا کہ انہیں نہیں معلوم کہ خشوگی کہاں چلا گیا۔
ان کی گمشدگی پر دنیا بھر میں شور اٹھا اور بالآخر سعودی عرب کو ترک تفتیش کاروں کو قونصلیٹ کی تلاشی کی اجازت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایک ترک عہدے دار نے نیویارک ٹائمز کو تصدیق کی کہ آڈیو ریکارڑنگ میں قونصلیٹ کے عہدے دار کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ یہ کام باہر جا کر کرو۔ تم مجھے مصیبت میں ڈال دو گے۔
آڈیو میں ایک ایجنٹ کا یہ جملہ بھی سنا جا سکتا ہے کہ اگر تم واپس سعودی عرب جا کر رہنا چاہتے ہو تو اپنا منہ بند رکھو۔
آڈیو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خشوگی کو قونصلیٹ کے اندر ایک دوسرے کمرے کی جانب زبردستی دھکیلا گیا۔ اس دوران اس نے مزاحمت کی جس پر اسے کسی نامعلوم چیز کا انجکشن لگایا گیا۔
خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ریاض سے استنبول آنے والی سعودی ایجنٹوں کی ٹیم کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ جس نے خشوگی کا سر کاٹ کر الگ کیا۔ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور پھر سعودی ٹیم کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنا تناؤ کم کرنے کے لیے میوزک سنیں۔ ڈاکٹر نے خود ہیڈ فون لگایا ہوا تھا۔
ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈاکٹر نے جب خشوگی کا جسم کاٹنا شروع کیا تو وہ اس وقت تک زندہ تھا۔
تاہم سعودی مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کچھ علم نہیں ہے کہ خشوگی کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔