سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے میں ان دنوں نہایت اہم اور دلچسپ بحث چھڑی ہوئی ہے۔ بحث کا موضوع ہے ” لڑکی کی شادی کے لئے کم ازکم عمر کا تعین “۔
سعودی عرب میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا رواج عام ہے اور اس سلسلے میں وہاں کوئی باقاعدہ قانون نہیں کہ شادی کے وقت لڑکی کی کم از کم عمر کیا ہونی چاہئے۔ بسا اوقات نہایت کم عمر لڑکی کو بڑی عمر والے شخص سے بیاہ دیا جاتا ہے ۔ سعودی عرب پر اس حوالے سے عالمی سطح پر سخت تنقید کی جاتی ہے ۔اسے اس معاملے پر سخت دباوٴ کا سامنا ہے ۔
اسی تنقید اور دباوٴ سے بچنے کے لئے ملک کے بیشتر حلقوں میں یہ سوچ بھی جڑ پکڑتی جاری ہے کہ لڑکیوں کی شادی کے لئے کم ازکم عمر 25سال طے کی جائے لیکن ملک کے جانے مانے دانشور اورمفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ ان حلقوں کے خلاف اور نوعمری میں لڑکیوں کی شادی کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی قوانین کی رو سے لڑکی کی شادی 10سے 12 سال کی عمر میں کی جاسکتی ہے کیوں کہ اس عمر میں لڑکیاں بالغ ہوجاتی ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے عربی اخبار ” الحیات “ کی ایک رپورٹ کے مطابق شیخ عبدالعزیز کا کہنا ہے” اسلام خواتین کوشادی کے لئے جبری روکے رکھنے کا درس نہیں دیتا۔ جو لوگ اس بات کے حق میں ہیں کہ لڑکیوں کی شادی کے لئے کم از کم 25 سال کی عمر مقرر کی جائے اور اس عمر سے پہلے شادی درست نہیں، وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔“ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دارالحکومت ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران کیا۔
شیخ عبدالعزیز کا مزید کہنا ہے کہ” ہمارے خاندان کی خواتین کی شادی اس وقت کردی گئی تھی جب وہ بمشکل 12سال کی ہوں گی۔ اگر لڑکیوں کو اچھی تربیت دی جائے تو وہ ازدواجی زندگی کی تمام ذمے داریاں بخوبی ادا کرسکتی ہیں۔ “
مفتی اعظم کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب سعودی عرب کی وزارت انصاف میں بھی لڑکیوں کی شادی کے لئے مخصوص عمر طے کرنے پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ ابھی وزارت کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے تاہم ملک میں اس موضوع پر بحث وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1