سعودی عرب میں رواں سال کے آخر تک خواتین کو محرم کے بغیر غیر ملکی سفر کی اجازت دیے جانے کا امکان ہے۔ اس اقدام سے مردوں کی اجارہ داری رکھنے والے معاشرے میں خواتین کو سماجی پابندیوں سے راحت ملے گی۔
اس بات کی تصدیق سعودی عرب کے دو اعلیٰ حکام نے کی۔ ان میں سے ایک کا تعلق سعودی عرب کے نظام انصاف سے بتایا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں کسی بھی عمر کی خاتون کو 21 سال سے کم عمر لڑکے کے ساتھ بیرون ملک سفر کے لیے اس کے والد یا سرپرست کی اجازت لینا لازمی ہے۔ اس پابندی کے خاتمے پر حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس قانون میں تبدیلی لاسکے گی۔
سعودی اخبار اوکاذ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے اس منصوبے سے واقفیت رکھنے والے ایک فرد کا کہنا ہے کہ خواتین کو محرم کے بغیر بیرون ملک سفر کی اجازت سے متعلق قانون میں تبدیلی کا باقاعدہ سرکاری اعلان رواں سال کے آخر تک متوقع ہے۔
سعودی عرب عمومی طور پر قدامت پسند معاشرے کے طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے، ایسی صورت میں خواتین کو محرم کے بغیر غیر ملکی سفر کرنے کی شرط ختم ہونا ایک اہم کامیابی ہوگی کیوں کہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں ایک طویل عرصے سے اس پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آرہی تھیں۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسا کررہے ہیں اور ان کا یہ اقدام معاشی اور سماجی اصلاحات کا ایک حصہ ہے۔
گزشتہ سال ملک میں خواتین کے گاڑی چلانے پر عائد پابندی بھی اٹھا لی گئی تھی۔ ساتھ ہی پولیس سے خواتین کے لباس اور انہیں بے پردگی کے سبب حراساں کرنے جیسے اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ مئی 2018 میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی اٹھائے جانے سے کچھ ہفتے پہلے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک گروپ نے سرپرست کی اجازت سے غیر ملکی سفر کرنے کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم اس گروپ کے مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔