سعودی عرب کی ایک عدالت میں بدھ کے روز خواتین کے حقوق کی 11 کارکنوں کے کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔ اب جب کہ ملک میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں پر ایک نیا کریک ڈاؤن جاری ہے، اس کیس نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کر لی ہے۔
ان کارکنوں میں لجین الحثلول بھی شامل ہیں جنہوں نے حکام پر حراست کے دوران جنسی زیادتی کا الزام بھی لگایا ہے۔ لجین پر غیر ملکی میڈیا، سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے گروپوں سے رابطوں کا الزام ہے۔
ریاض کی ایک فوجداری عدالت کے تین ججوں کا پینل ان پر عائد الزامات کے جواب سنے گا جس مقدمے کو ان کارکنان نے اس مہینے کے اوائل میں درج کیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پینل ان خواتین کو سزائیں سنائے گا۔
عدالت کے باہر تعینات پولیس نے مغربی میڈیا اور سفارت کاروں کو کورٹ کے اندر جانے سے روک دیا تھا۔ اس مشہور مقدمے کی پچھلی سماعتوں کے دوران بھی غیر ملکی میڈیا اور سفارت کاروں کو شرکت سے روکا جاتا رہا ہے۔
پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ٹرائل ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی آیا سماعت کیوں ملتوی ہوئی اور مقدمہ دوبارہ کب چلے گا۔
لندن سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن الست نے اپنے ٹویٹر کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا کہ ‘‘ہمیں بتایا گیا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی کارکنان کے کیس کا ٹرائل آج نہیں ہو سکا اور اس بات کی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔’’
ان 11 خواتین کے خاندانوں کو بھی کیس کے ملتوی ہونے کی وجوہات معلوم نہیں ہیں۔
اس مہینے کے اوائل میں سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے کارکنان پر ایک اور کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں نو مزید افراد گرفتار ہوئے، جن میں لکھاری اور دانشور شامل ہیں۔ دو افراد سعودی نژاد امریکی ہیں۔ ان میں عزیزہ کے بیٹے صلاح الحیدر بھی شامل ہیں۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ابلاغ کے ایک ذریعے نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے افراد کے خاندان اس سلسلے میں بہت بے چین ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ یہ افراد کہاں ہیں۔
پچھلے ہفتے بدھ کے روز سعودی عرب کے قریبی حلیف امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ایک بیان میں امریکی شہریوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطی کی مہم کے ڈائریکٹر سامع حدید نے کہا کہ ‘‘سعودی حکام کو ان خواتین کارکنان اور ان کے خاندانوں کی مصیبت ختم کر دینی چاہئے۔ انہیں فوری طور پر رہا کرکے ان پر بے سر و پہ الزامات واپس لینے چاہئیں۔’’
اے ایف پی کے ذرائع کے مطابق ان ملزمان میں سے کچھ نے ججوں سے مطالبہ کیا ہے کہ جن غیر ملکی افراد کے ساتھ ان پر رابطہ کرنے کا الزام ہے انہیں گواہی کے لئے آنے کی دعوت دی جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت کی کارروائی کے دوران کچھ خواتین جذبات سے مغلوب ہوگئیں اور انہوں نے الزام لگایا کہ دوران تفتیش ان پر بجلی کے جھٹکوں، کوڑوں اور جنسی تشدد جیسے طریقوں سے تشدد کیا گیا۔
سعودی پروسیکیوٹر نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے حکومت کے مؤقف کو دہرایا ہے۔