اسلام آباد —
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود ہفتہ کو تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے جہاں وزیراعظم نواز شریف نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا۔
ولی عہد کا منصب سنبھالنے کے بعد شہزادہ سلمان کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے اس سے قبل بطور گورنر ریاض انھوں نے 1998ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
اپنے قیام کے دوران شہزادہ سلمان پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
سعودی ولی عہد کے ہمراہ آنے والا ایک اعلٰی سطحی وفد دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، تجارت اور اقتصادی منصوبوں پر دوطرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت کرے گا۔
معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سعودی رہنما کے دورے کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت مل سکتی ہے۔
’’ہو سکتا ہے ماضی کی طرح پاکستانی بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں سکیورٹی کی خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ جو چھوٹے ہتھیار بناتا ہے سعودیہ وہ خریدے اس کے علاوہ جے ایف۔17 تھنڈر لڑاکا طیارے اور چھوٹے مشاق طیارے بھی پاکستان سعودیہ کو بیچنا چاہتا ہے، اقتصادی تعاون بھی بڑھانا چاہتا ہے تاکہ اس کو درپیش اقتصادی مشکلات کم ہوں۔‘‘
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات رہے ہیں لیکن گزشتہ سال جون میں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلٰی سطحی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔
رواں سال کے اوائل میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل اور بعد ازاں نائب سعودی وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن سلطان بن عبدالعزیز بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
رواں ماہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستانی قائدین سے ملاقاتوں میں علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بات چیت کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت بڑھانے اور وہاں مقیم پاکستانیوں کو سہولت دینے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
حکام کے مطابق تقریباً 15 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں جو ہر سال 4 ارب ڈالر بطور زرمبادلہ وطن بھیجتے ہیں۔
حال ہی میں سعودی عرب نے اپنے ہاں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے ویزا قوانین میں تبدیلی کا جو طریقہ کار متعارف کروایا تھا اُس کے تحت نو لاکھ پاکستانیوں نے ضروری دستاویزات میں درستگی کے بعد مکمل کروا لیا۔
تاہم اب بھی تین ہزار سے زائد پاکستانی سعودی عرب میں اپنے ویزہ دستاویزات میں سقم کے باعث حراستی مراکز میں ہیں جن کے کاغذات کی درستگی کے لیے حکام کے بقول اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ادھر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ ایک بیان کے مطابق انھوں نے فوج سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی۔
ولی عہد کا منصب سنبھالنے کے بعد شہزادہ سلمان کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے اس سے قبل بطور گورنر ریاض انھوں نے 1998ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
اپنے قیام کے دوران شہزادہ سلمان پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
سعودی ولی عہد کے ہمراہ آنے والا ایک اعلٰی سطحی وفد دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، تجارت اور اقتصادی منصوبوں پر دوطرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت کرے گا۔
معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سعودی رہنما کے دورے کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت مل سکتی ہے۔
’’ہو سکتا ہے ماضی کی طرح پاکستانی بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں سکیورٹی کی خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ جو چھوٹے ہتھیار بناتا ہے سعودیہ وہ خریدے اس کے علاوہ جے ایف۔17 تھنڈر لڑاکا طیارے اور چھوٹے مشاق طیارے بھی پاکستان سعودیہ کو بیچنا چاہتا ہے، اقتصادی تعاون بھی بڑھانا چاہتا ہے تاکہ اس کو درپیش اقتصادی مشکلات کم ہوں۔‘‘
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات رہے ہیں لیکن گزشتہ سال جون میں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلٰی سطحی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔
رواں سال کے اوائل میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل اور بعد ازاں نائب سعودی وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن سلطان بن عبدالعزیز بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
رواں ماہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستانی قائدین سے ملاقاتوں میں علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بات چیت کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت بڑھانے اور وہاں مقیم پاکستانیوں کو سہولت دینے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
حکام کے مطابق تقریباً 15 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں جو ہر سال 4 ارب ڈالر بطور زرمبادلہ وطن بھیجتے ہیں۔
حال ہی میں سعودی عرب نے اپنے ہاں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے ویزا قوانین میں تبدیلی کا جو طریقہ کار متعارف کروایا تھا اُس کے تحت نو لاکھ پاکستانیوں نے ضروری دستاویزات میں درستگی کے بعد مکمل کروا لیا۔
تاہم اب بھی تین ہزار سے زائد پاکستانی سعودی عرب میں اپنے ویزہ دستاویزات میں سقم کے باعث حراستی مراکز میں ہیں جن کے کاغذات کی درستگی کے لیے حکام کے بقول اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ادھر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ ایک بیان کے مطابق انھوں نے فوج سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی۔