رسائی کے لنکس

سعودی وزیر دفاع کی وزیرِاعظم، آرمی چیف سے ملاقاتیں


سعودی وزیرِ دفاع سے ملاقات کے دوران جنرل راحیل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی سلامتی پاکستان کے لیے اہم ہے اور سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔

سعودی عرب کے وزیردفاع محمد بن سلمان پاکستان کا دورہ مکمل کرکے وطن واپس روانہ ہوگئے ہیں۔

سعودی وزیر سرکاری دورے پر اتوار کی سہ پہر اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے دوطرفہ تعلقات اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔

ہوائی اڈے پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ان کا استقبال کیا۔

اسلامآباد پہنچنے کے فوراً بعد سعودی وزیر دفاع نے راولپنڈی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ عسکری تعاون اور دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں جنرل راحیل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی سلامتی پاکستان کے لیے اہم ہے اور سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی کامیابیوں کو سراہا۔

بعد ازاں سعودی وزیردفاع نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔

گزشتہ تین روز میں یہ کسی بھی اعلیٰ سعودی عہدیدار کا اسلام آباد کا دوسرا دورہ ہے۔ جمعرات کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسلام آباد کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔

گزشتہ سال سعودی عرب کی وزارت دفاع کا منصب سنبھالنے کے بعد محمد بن سلمان کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور نائب وزیراعظم دوم بھی ہیں اور خطے کی تازہ صورتحال خصوصاً ایران، سعودی عرب کشیدگی کے تناظر میں ان کا دورہ اسلام آباد خاصی اہمیت کا حامل ہے۔

گزشتہ ماہ ہی سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف 30 سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے اور حکام کے بقول سعودی وزیر دفاع کی پاکستانی اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اس اتحاد سے متعلق امور زیر بحث رہیں گے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار اور فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کسی بھی طور اپنی فوجیں کسی دوسرے کی لڑائی کے لیے نہیں بھیج سکتا لیکن اسلامی فوجی اتحاد پاکستان کے تجربات اور مشاورت سے خاصی مدد لے سکتا ہے۔

’’ہماری اپنے ملک میں مصروفیات اتنی زیادہ ہیں ہم کسی کے لیے (فوج نہیں بھیج) سکتے سوائے اس کے جو ہمارا عزم ہے کہ سعودی عرب کا اپنا خطہ یا اس کی اپنی سرزمین پر خطرات ہوئے جس سے وہ خود نہیں نمٹ سکتا تو ہم اپنے فوجی لازمی بھیجیں گے لیکن اس کے علاوہ اگر سعودی یہ چاہیں کہ کہیں شام میں، عراق میں یہ کسی اور جگہ تو وہ ہم نے اس زمانے میں ایران عراق جنگ کے دوران امریکہ کے دباؤ میں نہیں کیا تھا کیونکہ وہ پالیسی نہیں ہے ملک کی تو یہ نہیں ہو گا۔ تو سعودیوں کو اس حد تک میرا خیال ہے ان کو مطمئن رہنا پڑے گا کہ وہ ہم سے تکنیکی مدد لے لیں ہم سے تربیت لے لیں ہم سے رہنمائی لے لیں انٹیلی جنس تبادلہ کر لیں۔‘‘

پاکستانی عہدیداروں نے اس اتحاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں پاکستان کے کردار سے متعلق تبادلہ خیال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ رواں ماہ ہی اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع کا ایک اجلاس سعودی عرب میں منعقد ہو گا جس میں تمام ممالک اپنے اپنے تعاون سے متعلق تبادلہ خیال اور لائحہ عمل پر بات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف مختلف ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور انسداد دہشت گردی کے خلاف اپنے تجربات کا دوسرے ملکوں سے تبادلہ کرنے کو تیار ہے۔

XS
SM
MD
LG