سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اتوار کو سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
حکام کے مطابق سعودی وزیر دفاعی شعبے میں دو طرفہ تعاون کے علاوہ حال ہی میں اپنے ملک کی طرف سے اعلان کردہ اسلامی فوجی اتحاد کی جزیات پر پاکستانی عہدیداروں سے تبادلہ خیال کریں گے۔
شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور نائب وزیراعظم دوئم بھی ہیں اور خطے کی تازہ صورتحال خصوصاً ایران، سعودی عرب کشیدگی کے تناظر میں ان کا دورہ اسلام آباد خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
اس دورے سے تین روز قبل ہی سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے وزیراعظم نوازشریف اور بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
گزشتہ ماہ ہی سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف 30 سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستانی عہدیداروں نے اس اتحاد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں پاکستان کے کردار سے متعلق تبادلہ خیال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ رواں ماہ ہی اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع کا ایک اجلاس سعودی عرب میں منعقد ہوگا جس میں تمام ممالک اپنے اپنے تعاون سے متعلق تبادلہ خیال اور لائحہ عمل پر بات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف مختلف ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور انسداد دہشت گردی کے خلاف اپنے تجربات کا دوسرے ملکوں سے تبادلہ کرنے کو تیار ہے۔
سعودی عرب کے اعلیٰ عہدیدار ایک ایسے وقت پاکستان کا رخ کر رہے ہیں جب تہران اور ریاض کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے ہیں اور سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم شیخ نمر النمر کی سزائے موت پر عملدرآمد کے تناظر میں خطے میں فرقہ وارانہ تقسیم کے بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ پاکستان مناسب وقت پر اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرے گا لیکن سردست اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کا پاکستان پر کسی طرح سے منفی اثر نہ پڑے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور مذہبی حلقوں کی طرف سے حکومت پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ چونکہ اسلام آباد کے ریاض اور تہران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں لہذا وہ ان کے مابین کشیدگی کو ختم کروانے میں دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کرے۔