|
سعودی عرب نے 2024 میں 338 افراد کو سزائے موت دی یہ تعداد اس سے ایک سال قبل 2023 میں ریکارڈ کی گئی تعداد 170 سے بہت زیادہ اور کئی عشروں میں دی گئی موت کی سزاؤں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔
تازہ ترین سزائے موت کے بارے میں سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (SPA)نے بدھ کو اعلان کیا کہ سعودی عرب نے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں سزا پانے والے چھ ایرانیوں کو سزائے موت دے دی ہے۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے ایس پی اے پر شائع ایک اعلان میں کہا ان ایرانیوں کو خفیہ طریقے سے سعودی عرب میں حشیش متعارف کرانے کےجرم میں سلطنت کے خلیجی ساحل پر واقع دمام میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
بیان میں سزائے موت دی جانے کی تاریخ کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
تہران کی وزارت خارجہ نے اس سزائے موت پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ، ایران نے بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور اقدار کی ناقابل قبول خلاف ورزی کے خلاف سخت احتجاج کے لیے سعودی سفیر کو طلب کیا۔
اے ایف پی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ریاض نے 2024 میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں 117 افراد کو سزائے موت دی ہے۔
2023 میں، خلیجی بادشاہت کے حکام نے انسداد منشیات کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی ایک مہم شروع کی تھی جس میں چھاپوں اور گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شامل تھا۔
سعودی عرب میں دو سال قبل منشیات کے الزام میں سزائے موت کے استعمال پر پابندی کے خاتمے کے بعد سے اسمگلروں کی سزائے موت کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے جو ان سزاؤں کا ریکارڈ تیار کر رہا ہے، کہا ہے کہ اس سے قبل سعودی عرب میں موت کی سب سے زیادہ تعداد 2022 میں 196 اور 1995 میں 192 تھی۔
سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ تعلقات اس وقت منقطع کر لیے تھے جب شیعہ عالم نمر النمر کی سزائے موت پر مشتعل مظاہرین نے تہران میں اس کے سفارت خانے اور مشہد میں اس کے قونصل خانے پر گئے تھے۔
مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں ہونے والی ایک مصالحت کے بعد سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔
ریاض میں سزائے موت کے استعمال پر انسانی حقوق کے گروپس باقاعدگی سے تنقید کرتے رہے ہیں۔
سعودی عرب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہیں۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے سزائے موت ضروری ہے اور اس کا استعمال صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب تمام اپیلیں ختم ہو جاتی ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2022 میں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو قتل کے مجرم ہیں۔
محمد بن سلمان کے متعارف کردہ وژن 2030 کے تحت سعودی عرب ملک کے سخت مذہبی پابندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے تاثر کو ختم کر کے سیاحت اور انٹرٹینمنٹ کا مرکز بننے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے ۔
فورم