سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یمن میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کے گرد اپنا محاصرہ جزوی طور پر نرم کر دے گا تاکہ چند روز پہلے ایک جنازے پر ہلاکت خیز حملے میں زخمی ہونے والوں کو وہاں سے نکالا جا سکے۔
مبصروں کا کہنا ہے کہ اگر یمن میں انسانی ہمدوردی کی امداد لانے کی اجازت نہ دی گئی تو اس ملک کو بھوک کی شدید صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہفتے کے روز دارالحکومت صنعا میں ایک جنازے پر فضائی حملے میں 140 افراد ہلاک اور 500 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
سعودی عرب کے ایک سرکاری میڈیا نے بدھ کے روز ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت ان زخمیوں کو بیرونی اسپتالوں میں منتقل کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی جنہیں علاج کی ضرورت ہے۔
یمن کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ 300 زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
یمن سے تعلق رکھنے والے ایک نامہ نگار اور بلاگر افرح ناصر نے سویڈن سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت یمن میں علاج معالجے کی سہولت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن کے بہت سے حصوں میں زندگی گذارنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور دوائیاں تقریباً نایاب ہو چکی ہیں۔ اسپتالوں کی تو بات ہی چھوڑیں۔ وہاں آپ کو خالی کمروں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
اٹھارہ مہینے پہلے سعودی اتحاد کے تحت فضائی حملوں کے آغاز سے اب تک وہاں 7000 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اور زیادہ تر ہلاکتیں فضائی بمباری سے ہوئی ہے۔
انہوں نے یمن کو ایک ایسا ملک قرار دیا جسے بھلا دیا گیا ہے۔ بہت سے گرہوں کو مہنگے ہتھیاروں کے ٹھیکوں اور طاقت ور علاقائی اتحادیوں سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں یمن میں جنگ اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ جاری ہے اور اس ملک کوجان بوجھ کر فراموش کر دیا گیا ہے۔