سعودی عرب میں تربیت مکمل کرنے والی 32 خواتین ٹرین ڈرائیوروں نے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
یہ خواتین سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے درمیان چلنے والی ’حرمین ایکسپریس ٹرین‘ ڈرائیو کرنے والے عملے میں شامل ہوں گی۔
سعودی ریلوے کمپنی نے اس موقعے پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں خواتین ٹرین ڈرائیور کی تربیت سے لے کر ان کی عملے میں شمولیت کے مختلف مراحل دکھائے گئے ہیں۔
سعودی حکام کے مطابق حرمین ایکسپریس دنیا کی تیز رفتار ترین ٹرینز میں شمار ہوتی ہے۔ یہ بلٹ ٹرین 453 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔
ویڈیو کے مطابق تربیت یافتہ خواتین اس بات پر فخر کا اظہار کررہی ہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ٹرین چلانے والی خواتین کے پہلے دستے میں شامل ہیں۔
حکام کے مطابق خواتین کو حقیقت سے قریب تیرن سیمیولیٹرز کے ذریعے ٹرین چلانے کی تربیت دی گئی تھی۔
یہ سیمیولیٹرز ٹرین کے حقیقی کیبن کی طرز پر تیار کیے گئے تھے جن میں تمام موسمی حالات اور تکنیکی مسائل سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔
مقامی آن لائن اخبار ’سعودی گزٹ‘ کے مطابق سعودی عرب کی ٹرانسپورٹ جنرل اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حرمین ایکسپریس کے ڈرائیورز میں خواتین کی شمولیت ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خواتین کے کردار کی حوصلہ افزائی کا تسلسل ہے۔
سعودی عرب میں 2018 کے بعد متعارف کرائی گئی اصلاحات کے بعد خواتین کو نقل و حرکت اور عملی و پیشہ ورانہ شعبوں میں شمولیت سے متعلق کئی آزادیاں حاصل ہوئی ہیں۔
جون 2018 میں خواتین کی گاڑی چلانے پر عائد پابندی ختم کی گئی تھی۔ سعودی سماج میں خواتین کے کردار سے متعلق یہ فیصلہ ایک بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے 2016 میں پیش کیے گئے وژن 2030 کے بعد کئی معاشی اور قانونی اصلاحات کی گئی ہیں۔
ان اصلاحات کے بعد عملی زندگی میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے لیے اقدامات بھی شامل ہیں۔
تاہم حکومتی پالیسیوں تنقید کرنے والوں کی آواز دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے سعودی شاہی خاندان اور بالخصوص موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔