سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے کہا ہے کہ عرب اتحادی طیاروں نے یمن میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز 'ایم ایس ایف' کے اسپتال پر بمباری نہیں کی ہے۔
پیر دیر گئے شروع ہونے والی بمباری سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم اس کی وجہ سے شمال مغربی یمن میں واقع اسپتال تباہ ہو گیا۔ یہ علاقہ حکومت مخالف حوثی باغیوں کا گڑھ ہے۔
اقوام متحدہ میں سعودی سفیر عبداللہ المعلمی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "جس واقعہ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے اس وقت عرب اتحادی طیاروں نے کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "جس علاقے میں (اتحادی فضائی) کارروائی کی گئی تھی وہ سعودی یمن سرحد کے قریب تھا اور جس اسپتال کا ذکر کیا گیا ہے یہ جگہ اس اسپتال سے 40 کلومیٹر دور شمال میں (واقع) ہے"۔
انہوں نے کہا کہ یمن کی حکومت اور اتحاد کی طرف سے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹروں کی بین الاقوامی فلاحی تنظیم کا کہنا ہے کہ عملے اور شدید زخمی مریضوں کو منگل کو اسپتال سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اسپتال مئی سے ہر ماہ تقریباً 200 زخمیوں کا علاج کر رہا ہے۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے گلوبل پوزیشنگ سسٹم (جی پی ایس) کے ذریعے اسپتال کے (محل وقوع کے) بارے میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کو باقاعدگی سے آگاہ رکھا جاتا رہا ہے اور اسپتال کی چھت کے اوپر اس فلاحی تنظیم کا شناختی نشان بھی واضح طور پر نصب ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون تواتر کے ساتھ تمام فریقوں پر جنگ بند کرنے پر زور دے رہے ہیں اور انہوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بین الااقومی انسانی ہمدردی کے قانون کے مطابق اسپتالوں اور طبی عملے کو واضح طور پر تحفظ حاصل ہے۔ بان کی مون نے فوری اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی طرف سے مارچ کے اواخر سے یمن میں فضائی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کارروائیوں میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے صدر عبدو ربو منصور ہادی کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔ تاہم وہ ان فضائی کارروائیوں کے شروع ہونے کے بعد ملک میں واپس آ گئے ہیں اور (سرکاری) زمینی دستے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر رہے ہیں جن پر باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ اس تنازع کے سیاسی حل کے لیے تمام فریقوں کو مذاکرات کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس لڑائی نے عرب دنیا کے غریب ترین ملک کو انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دو کروڑ دس لاکھ آبادی کے اس ملک کے 80 فیصد شہریوں کو امداد کی ضرورت ہے۔