کراچی میں سرکاری رہائشی کالونی’ پاکستان کوارٹرز ‘میں طویل عرصے سے مقیم افراد کو بے دخل کرنے کے لیے پولیس نے کارروائی کی۔ کوارٹرز کے مکینوں پر الزام ہے کہ وہ انہیں غیر قانونی طور پر فروخت کر رہے ہیں اور ان کے حصے بنا کر کرائے پر دے رہے ہیں۔
گزشتہ دو روز سے رہائش پذیر افراد کوارٹرز خالی کرائے جانے کے خدشے پیش نظر احتجاج کر رہے تھے۔ بدھ کے روز ان کے احتجاج میں تیزی آ گئی اور یہ احتجاج پولیس اور مکینوں کے درمیان جھڑپوں میں تبدیل گیا۔
جھڑپوں کے دوران کئی افراد کو گہرے زخم آئے، کئی ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے واٹر کینن، اشک آور گیس اور ہوائی فائرنگ کی
صورت حال کو بگڑتے دیکھ کر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بے دخلی کے لئے جاری آپریشن 3 ماہ تک مؤخر کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
پاکستان کوارٹرز میں کئی سال تک رہائش رکھنے اور فی الوقت ایف بی ایریا میں مقیم عبدالقدیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’ کہ جن لوگوں کو یہ کوارٹرز الاٹ ہوئے تھے ان میں سے زیادہ تر یا تو’ اللہ کو پیارے ‘ہو گئے یا پھر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ اب وہ یا ان کی اولادوں میں سے کچھ نے اپنے کوارٹر فروخت کر دیئے ہیں جبکہ کچھ نے انہیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تبدیل کر کے کرائے پر چڑھا دیا ہے۔
پاکستان کوارٹرز میں رہائش پذیر محمد سلیم اور مسعود عالم کا کہنا تھا کہ تمام رہائشی اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ سرکاری گھر کو بیچا یا کرائے پر نہیں دیا جا سکتا، جبکہ ہمیں دیئے جانے والے سرٹیفکیٹ پر یہ لکھا ہے کہ کوارٹر خالی کرانے کی صورت میں متبادل جگہ دی جائے گی۔
گورنر سندھ عمران اسماعيل نے سرکاری کوارٹرز میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ان کا اس ضمن میں چیف جسٹس سے رابطہ ہوا ہے۔ انہوں نے میری درخواست پر بے دخلی کا آپریشن 3 ماہ تک مؤخر کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
اس سے قبل بدھ کی صبح’ پاکستان کوارٹرز‘ کی سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کی کارروائی کے دوران پولیس نے متعدد افراد کو حراست میں لیا اور کئی ایک افراد زخمی ہو گئے۔
پولیس آپریشن کے خلاف’ پاکستان کوارٹرز‘ کے مکین سڑکوں پر نکل آئے اور داخلی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردیں جبکہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب بھی مکینوں نے تمام راستے بند کر کے پولیس آپریشن کے خلاف شديد احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف نعرہ لگائے۔
جب جھڑپیں شروع ہوئیں تو پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھیاں برسائیں، واٹر کینن کا استعمال کیا اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ اسی دوران پولیس کوارٹرز میں داخل ہو گئی، جبکہ مظاہرین نے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
ایس پی جمشید شمائل ریاض نے میڈیاکو بتایا کہ آپریشن کے دوران 12 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کو فون کر کے گرفتار افراد کو رہا کرنے اور پولیس کو فوری واپس بلانے کا حکم دیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت مکینوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کے احکامات کے بعد پولیس نے آپریشن روک دیا۔
دوسری جانب مظاہرین سے یکجہتی کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے متعدد راہنما موقع پر پہنچ گئے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں تحفظ کی مکمل یقین دہائی نہیں کرائی جاتی، احتجاج جاری رہے گا۔