رسائی کے لنکس

پیراگون اسکینڈل: سپریم کورٹ نے خواجہ برادران کی ضمانت منظور کر لی


سپریم کورٹ کا دونوں ملزمان کو 30، 30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت۔ (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ کا دونوں ملزمان کو 30، 30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت نے دونوں ملزمان کو 30،30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی ہے۔

سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ "نیب میں یا تو اہلیت نہیں یا اس کی نیت خراب ہے۔ نیب کے پاس ضمانت خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں۔ خواجہ برادارن کے اکاؤنٹس میں پیسے آئے ہیں تو اس میں غیرقانونی کیا ہے؟"

پیراگون ہاﺅسنگ اسکینڈل میں خواجہ برادران کی درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا اور بتایا کہ پیراگون سوسائٹی کی کمپنیاں مختلف تھیں۔ نیب کا الزام ہے کہ لوگوں کو الاٹمنٹ نہیں دی گئی۔ نیب کی جانب سے 68 افراد کو پلاٹ کی ڈیلوری نہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ پیراگون نے نیب کو بتایا کہ 68 سے 62 افراد کے کیس حل کر دیے ہیں جب کہ نیب کے نوٹس پر 62 افراد پیش ہوئے۔ متاثرین نے کہا کہ ان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، پیش ہونے والے افراد نے بتایا کہ نیب کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔

وکیل امجد پرویز نے دلائل کے دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکلان کو 11 جولائی 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ کبھی نیب کی طلبی پر غیر حاضر نہیں ہوئے۔ کبھی بھی کوئی دستاویز پیش کرنے سے انکار نہیں کیا۔

ان کے بقول، 30 مئی 2019 کو چھ ماہ گرفتاری کے بعد ریفرنس داخل کیا گیا۔ چار ستمبر 2019 کو فرد جرم عائد ہوئی۔ اس کیس میں 122 گواہ مقرر کیے گئے لیکن صرف پانچ گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے۔

وکیل نے کہا کہ وفاق نے اعتراض کیا کہ وعدہ معاف گواہ کا بیان بھی ریکارڈ کرنا چاہیے تھا، آج تک تمام پیشیوں پر صرف دو بار التوا مانگا۔

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ "کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں سوسائٹی کے پاس مسجد، پارکس اور فلاح کے لیے جگہ موجود ہے۔ اس سوسائٹی کا پلان کس نے منظور کیا؟"

جس پر امجد پرویز نے کہا کہ 2005 میں سوسائٹی ٹی ایم اے سے منظور ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا اراضی کے تبادلوں کا الزام بھی ہے؟ سوسائٹی میں شاملات (زمین سے متصل جگہ) کی اراضی کتنی ہے؟

وکیل نے آگاہ کیا کہ 7200 کنال کی اراضی میں صرف 39 کنال شاملات میں شامل ہے۔ میرے موکلان کا پیراگوان سے براہ راست تعلق نہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایک طرف کہتے ہیں خواجہ برادران کا پیراگون سے تعلق نہیں، دوسری جانب پیراگون اور خواجہ برادران زمینوں کا تبادلہ کر رہے ہیں؟

وکیل نے کہا کہ سعد رفیق نے 50 کنال زمین کے عوض 40 کنال پیراگون سے لی۔ خواجہ برادران کو کمیشن کی مد میں پیراگون نے رقم ادا کی۔ دونوں بھائیوں نے تیسرے فریق سے پیراگون کو زمین دلوائی تھی۔ سلمان رفیق پر 12 اور سعد رفیق پر 6.6 ملین غیر قانونی رقم لینے کا بھی الزام ہے۔

وکیل نے دلائل میں کہا چیئرمین نیب نے گواہ قیصر امین بٹ کو دو مرتبہ معافی دی جس کے بعد اس نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا۔ قیصر امین بٹ کا بیان نیب کی مرضی کے مطابق نہیں تھا۔

'خواجہ برادران نے پیراگون کو زمین دلوائی'

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ دونوں بھائیوں نے پیراگون کو زمین دلوائی جس کے عوض انہوں نے کمیشن حاصل کیا۔ جن 62 افراد کے کلیم سیٹل ہوئے انہیں رقم کی ادائیگی خواجہ برادران نے ہی کی تھی۔

جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ 68 لوگوں سے فراڈ کو عوام الناس سے فراڈ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیب کی نیت کا مسئلہ ہے یا پھر اہلیت کا۔ جب پلان کی منظوری ٹی ایم اے نے دی تو نیب کے پاس ضمانت خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں۔ نیب نے شاملات کی زمین کے پلان میں خلاف ورزی کا الزام نہیں لگایا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ خواجہ برادارن کے اکاؤنٹس میں پیسے آئے ہیں تو اس میں غیر قانونی کیا ہے، وہ تو مان رہے ہیں کہ پیسے آئے ہیں، نیب کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے اب خواجہ برادران کو حراست میں رکھا جائے۔

عدالت نے فریقین وکلا کے دلائل سننے کے بعد خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانتیں منظور کر لیں۔

مسلم لیگ (ن) کا ردِ عمل

منگل کو عدالت آنے والے لیگی رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو میں عدالتی فیصلے کو سراہا۔ مریم اورنگزیب نے عدالتی فیصلے کو چیئرمین نیب اور نیب قانون پر طمانچہ قرار دیا۔

سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عمران خان کا ہر عمل بدنیتی پر مبنی ہے۔ کیا سعد رفیق کی جیل میں گزاری زندگی نیب واپس دے سکتا ہے؟ ہم نے بار بار کہا کہ ملک چلانے کے لیے نیب کو بند کریں۔ چیئرمین نیب استعفیٰ دے کر گھر جائیں۔

شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ ملک میں سیاستدان کو توڑنے، دبانے کے لیے نیب استعمال ہو رہا ہے۔ وقت ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ الزامات قانون کے مطابق لگائے جائیں، ہم نیب کو بند کرنے کی ترمیم چاہتے ہیں۔ عمران خان سن لیں آج عدالت نے کیا کہا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ نیب عمران خان کے مخالفین کی آواز بند کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ نیب صرف عمران خان کی مرضی پر چل کر فسطائیت نازل کر رہا ہے۔

ان کے بقول، نیب خواجہ برادران کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کی ایک وجہ بھی نہیں بتا سکا۔ آج کے فیصلے کے بعد چیئرمین نیب اور نیب کے رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔

XS
SM
MD
LG