سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا میں پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس کو معلوم نہیں کہ تحقیقات کیسے کرنی ہے۔ تحقیقاتی افسر خود سرکاری دفاتر جا کر مطلوبہ معلومات کیوں حاصل نہیں کر سکتا؟
عدالت نے مطیع اللہ جان کو توہینِ عدالت کیس میں جواب جمع کرانے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دے دی ہے۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے بھی کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں مطیع اللہ جان کے اغوا اور توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس پر صحافی کے اغوا سے متعلق پولیس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا فوجداری مقدمات کی تحقیقات ایسے کی جاتی ہے۔ اغوا کے مقدمے میں تفتیشی افسر نے لیٹر بازی شروع کر رکھی ہے۔ تحقیقاتی افسر خود سرکاری دفاتر جاکر مطلوبہ معلومات کیوں حاصل نہیں کرسکتا؟ تحقیقاتی افسر کو سی ڈی آر چاہیے یا لیب رپورٹ، ان کے دفتر جا کر لے کر آئے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بھی پولیس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی رپورٹ تسلی بخش نہیں ہے۔ جس پر عدالت نے چار ہفتوں میں پولیس کو تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
دورانِ سماعت صحافی مطیع اللہ جان نے توہین عدالت کیس میں جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگا تو عدالت نے چار ہفتوں کی مہلت دے دی۔
چیف جسٹس نے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جواب دینے میں آپ وقت لگا رہے ہیں۔ یہ نقصان دہ ہوگا۔ توہین عدالت کے مقدمات میں وقت بہت اہم ہوتا ہے۔
صحافی مطیع اللہ جان نے بتایا کہ اغوا کی وجہ سے وہ اپنے وکیل سے مشاورت نہیں کر سکے۔ وکیل کی مشاورت سے آئندہ سماعت پر جواب جمع کردیا جائے گا۔
آئی جی اسلام آباد پولیس عامر ذوالفقار خان نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن کی سربراہی میں کمیٹی تفتیش کر رہی ہے۔ متعلقہ اداروں کو معاونت کے لیے درخواست کی ہے جب کہ تحقیقات کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل سی ڈی آرز کے لیے تحریری درخواست دے چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی ادارے کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مطیع اللہ جان کے واپس ملنے کے مقام سے شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں لیکن متعلقہ اداروں کے جواب کے بعد مزید تحقیقات آگے بڑھ سکیں گی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان کی شناخت کے لیے نادرا کو سی سی ٹی وی کی فوٹیج بھجوائی گئی ہے جہاں سے اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔ جیوفینسنگ سمیت دیگر تکنیکی امور کے لیے مختلف اداروں سے مدد مانگی گئی لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ڈپارٹمنٹ اور تحقیقاتی ٹیم کے اراکین اغوا ہونے والے صحافی اور دیگر محکموں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہر کوشش کر رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان کا 'اغوا' اور واپسی
رواں سال 21 جولائی کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-6 میں اسکول کے باہر سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تھا اور اسی روز 11 گھنٹے بعد انہیں نامعلوم افراد نے اسلام آباد کے قریب فتح جنگ کے صحرائی علاقے میں چھوڑ دیا تھا۔
مطیع اللہ جان کے اغوا کا مقدمہ تھانہ آبپارہ میں ان کے بڑے بھائی شاہد اکبر کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ان کے بھائی کو زبردستی مسلح افراد نے اغوا کیا۔
شاہد اکبر نے پولیس کو بتایا تھا کہ اغوا کار کالے رنگ کی وردی میں ملبوس تھے اور انہوں نے گاڑیوں پر پولیس کی لائٹس بھی لگا رکھی تھیں۔
توہین عدالت کیس
گزشتہ ماہ کی 15 تاریخ کو سپریم کورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ’توہین آمیز‘ الفاظ استعمال کرنے پر از خود نوٹس لیا تھا۔ 15 تاریخ کو ہی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مطیع اللہ جان کو جواب جمع کرانے کے لیے نوٹس جاری کیا۔
از خود نوٹس کے مطابق صحافی مطیع اللہ جان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد جو ٹویٹ کی تھی اس سے توہین عدالت کا پہلو نکلتا ہے۔
پی ایف یو جے کا فریق بننے کا فیصلہ
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے مطیع اللہ جان کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے خلاف نوٹس ایک ٹوئٹ پر لیا گیا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے سوشل میڈیا کا مستقبل جڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ پی ایف یو جے کا موقف ہے کہ اس معاملے پر فیصلے سے پہلے آرٹیکل 19 پر ہمیں بھی سنا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر مطیع اللہ جان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ عائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ مطیع اللہ جان کیس میں پولیس رپورٹ مذاق ہے۔ پولیس میں جرات نہیں کہ اداروں سے واقعات کے تفصیل لے سکے۔