سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت سے مشاورت کے بعد عام انتخابات کی تاریخ کا نوٹی فکیشن عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل نے صدرِ مملکت کی دستخط شدہ کاپی بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے 90 روز میں الیکشن کرانے کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے پاس اس معاملے پر اختیارِ سماعت نہیں ہے۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان کا معاملہ غیر ضروری طور پر اس عدالت میں لایا گیا۔
حکم نامے کے مطابق عدالت نے الیکشن کمیشن اور صدرِ پاکستان کو سہولت فراہم کی کہ وہ آئین کے اندر رہ کر اس معاملے کو حل کریں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف سمیت متعدد درخواست گزاروں نے نوے روز میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جمعرات کو عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ کمیشن 11 فروری کو عام انتخابات کا انعقاد کرائے گا جس پر سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پہلے صدرِ پاکستان سے مشاورت کی جائے۔
بعدازاں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں وفد نے ایوانِ صدر میں صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی تھی جس کے بعد آٹھ فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہو گیا تھا۔
'عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا'
چیف جسٹس نے حکم نامے میں مزید لکھا کہ عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔ تحریکِ عدم اعتماد کے بعد اسمبلی تحلیل کی گئی جو غیر آئینی تھی۔ تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے مترادف تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عوام کو منتخب نمائندوں سے دُور نہیں رکھا جا سکتا۔ اُمید کرتے ہیں کہ آئینی ادارے مستقبل میں سمجھ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ سپریم کورٹ نے سیاسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج سے 15 برس قبل ایک غیر آئینی عمل کیا گیا اور آئین سے تجاوز کیا گیا۔ اس کے اثرات نہ صرف معاشرے بلکہ ملک پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
'اگر سب خوش ہیں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں'
دورانِ سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے۔ انشاء اللہ آٹھ فروری کو انتخابات ضرور ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تمام ممبران نے متفقہ طور پر تاریخ پر رضامندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
اس پر تمام فریقوں کے وکلا نے کہا کہ ہم سب خوش ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی بحث کو آئندہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اُمید کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی صورتِ حال نہیں پیدا ہو گی۔
میڈیا نے ابہام پیدا کیا تو پیمرا کارروائی کرے گا'
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کے دماغ میں شک ہے تو رہے، انتخابات ہر صورت آٹھ فروری کو ہوں گے، میڈیا بھی اگر شکوک و شبہات پیدا کرے کہ الیکشن نہیں ہوں گے تو وہ بھی آئین کی خلاف ورزی کرے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی چینل نے پٹی چلائی کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں تو پیمرا کارروائی کرے گا۔ کوئی بھی مائیک پکڑ کر کہہ دے مجھے نہیں لگتا الیکشن ہوں گے تو یہ اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے۔
فورم