ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے اور ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اسے دنیا کی تمام جمہوریتوں کی ماں کہتے ہیں۔ مگر جمہوریت اور سیاسی وانسانی حقوق جانچنے والا امریکی تحقیقی ادارہ فریڈم ہاؤس بھارت کو آزاد جمہوریتوں میں نہیں بلکہ جزوی طور پر آزاد جمہوریتوں میں شمار کرتا ہے۔
فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد سے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسیاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے متعصبانہ رہی ہیں۔
سویڈن کے V-Demانسٹیٹیوٹ نے ادارے کی سال 2022 کی رپورٹ میں بھارت کو آمرانہ طرز حکومت والی جمہوریت قرار دیا ہے اور اس کی وجہ حکومتی جماعت کی اجتماعیت مخالفانہ پالیسیز، راہنماؤں کی جانب سے جمہوری اقدار قائم رکھنے میں عدم دلچسپی، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کی پالیسی اور سیاسی جبر کی قبولیت کو قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں بھارت کے علاوہ برازیل، ہنگری، پولینڈ، سربیا اور ترکی کے نام بھی شامل ہیں۔
بھارت ایک سیکولر ریاست بھی ہے ۔ سیکولر ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر یہاں شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت شہریوں کو ضمیر کی آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کے اقرار، اس پر عمل اور اس کی تبلیغ کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے تاہم اس مذہبی آزادی کو Essential Religious Practices یعنی لازمی مذہبی جزو سے جوڑ دیا گیا۔
یہ لازمی مذہبی جزو کیا ہونگے اس کی تعریف آئین میں موجود نہیں۔ مگر 1954 کے شیرور متھ ہندو خانقاہ کیس میں عدالت نے لازمی جزو ہونے کے کچھ پیمانے طے کیے جن میں سر فہرست یہ تھا کہ یہ وہ عوامل ہونگے جن پر مذہب کی بنیاد ہوگی یعنی کہ اگر ان پر عمل نہ ہوا تو گویا مذہب مکمل نہ ہوا۔
اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جانا تھا کہ کیا یہ عوامل تب سے لاگو ہیں جب سے دین آیا یا پھر وقت کے ساتھ اس کا حصہ بنے۔ اس نکتے پر اعتراض کرتے ہوئے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ چار ہزار سال قدیم ہندو مذہب اور ڈھائی، ڈھائی ہزار سال قدیم بدھ مت اور جین مذہب کی بنیاد رکھے جانے کے وقت کیا لازم تھا کیا نہیں، اس کا تعین عدالت کیسے کرے گی؟
ابھی بھارت میں تین طلاق کے عمل کو کالعدم اور قابل سزا قرار دینے پر ہی بعض طبقوں کے اعتراضات نہیں تھمے تھے کہ سال دو ہزار اکیس کے اختتام پر بھارتی ریاست کرناٹک کے پری یونیورسٹی کالج سے حجاب پہنی کچھ طالبات کو یونیفارم کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کلاسز سے نکال دیا گیا۔ دیکھا دیکھی آنے والے دنوں میں ریاست کے کئی اور سرکاری اسکولز اور کالجز میں بھی ایسے ہی رولز لاگو ہوتے ہوئے دکھائی دیے۔
مسلم طالبات احتجاج پر بیٹھیں تو ہندو قوم پرست جنہیں عام طور پر ہندوتوا یا سنگھی کہا جاتا ہے زعفرانی رومال کندھوں پر لٹکائے حجاب پر پابندی کے حق میں باہر نکل آئے۔
بات اور بڑھی تو طالبات نے جنوری کے آخر میں ریاستی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ جواب میں ریاست نے کرناٹک تعلیمی ایکٹ 1983 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری تعلیمی اداروں کو یہ اختیار دیا اور کہا کی تعلیمی ادارے برابری اور مساوات قائم رکھتے ہوئے ایک جیسا یونیفارم لاگو کرنے کے مجاز ہیں۔
15 مارچ کو کرناٹک ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں اور اس پر پابندی سے طالبات کی مذہبی آزادی سلب نہیں ہوتی اس لیے تعلیمی اداروں کی جانب سے حجاب پر پابندی درست ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام ’ع مطابق ‘ کے لیے خصوصی پیغام میں ایک متاثرہ طالبہ عالیہ اسدی نے عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے فیصلہ دیا ہے انصاف نہیں۔
ایک اور متاثرہ طالبہ اور ہائی کورٹ پٹیشنر الماس کا کہنا تھا کہ برابری کا تعلق لباس سے نہیں بلکہ سب کو ایک سمجھنے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیفارم کی مخالفت کسی نے نہیں کی، ماضی میں بھی مسلم خواتین پری یونیورسٹی کالج میں حجاب پہن کر آتی رہی ہیں تو اب کیا مضائقہ تھا۔ الماس کے مطابق جو معاملہ کالج کے اندر ہی حل ہو سکتا تھا اسے سیاسی رخ دے دیا گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی کے راہنما نوین کمار کا بھی ماننا ہے کہ معاملے کو سیاسی رخ دیا گیا مگر وہ اس معاملے پر مسلم طالبات سے بالکل مختلف موقف پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے ’ع مطابق‘ کے لیے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں تعلیمی اداروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یونیفارم کا اطلاق یقینی بنائیں۔ ان کے مطابق مسلمان خواتین حجاب کرکے مسجد جائیں، بازار یا پارک جائیں انہیں آزادی حاصل ہے مگر جب ستر سال سے یونیفارم کے مقابلے میں حجاب کو کھڑا نہیں کیا گیا تو اب کیوں اسے مسئلہ بنایا جارہا ہے۔
ایسا نہیں کہ سات دہائیوں میں بھارتی مسلمان لڑکیوں نے تعلیمی اداروں میں کبھی حجاب نہیں پہنا، یا یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کی اجازت آج پہلی بار مانگی جا رہی ہے۔
بھارتی صحافی اور انسانی حقوق کارکن اجیت ساہی پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے نوین کمار سے مختلف تصویر کھینچتے ہیں۔’ع مطابق‘ میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی نانی بھی ساڑھی کا پلو اوڑھ کر کالج جایا کرتی تھیں۔اجیت ساہی کے مطابق بھارت میں ہندوتوا حلقوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے اور یہ حجاب کا مسئلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یاد رہے کہ حجاب پر پابندی کی وجہ سے پری یونیورسٹی کالج کی بہت سی طالبات سالانہ پریکٹکلز کے امتحانات دینے سے محروم رہ گئی تھیں۔ اس سوال پر کہ ان طالبات کی تعداد کیا ہوگی بھارتی صحافی عارفہ خانم شیروانی کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کئی سو طالبات تعلیم اور امتحانات سے محروم ہیں اگر یہ محض ایک طالب علم کی بات ہو تب بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ بھارتی آئین کے تحت فرد واحد کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو باقی سب کو۔
عارفہ خانم شیروانی نے ’ع مطابق‘ میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس تمام معاملے کو سیاسی اور مذہبی بحث سے بالاتر ہو کر بھی دیکھنا چاہیے۔ ان کے مطابق بھارتی مسلمانوں کی اکثریت معاشرے کے پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتی ہے اور مسلمانوں میں 100 میں سے ایک لڑکی گریجوئیشن کر پاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ لڑکیاں یہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے ہی کئی نامساعد حالات سے گزر چکی ہوتی ہیں۔ اور بجائے اس کے کہ ان کی زندگی آسان بنائی جائے انہیں تعلیم کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ریاست بھی ان پر پابندیاں لگا رہی ہے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے سے مایوس دو طالبات نے بھارتی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے جس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اس معاملے کو اعلی ترین عدلیہ کے سامنے لے گیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مطابق ہائی کورٹ کے فیصلے میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلامی قوانین کی تشریح کو نظر انداز کیا گیا۔
بورڈ کے وکیل کے مطابق اس فیصلے سے نہ صرف ایک طبقہ متاثر ہوا ہے بلکہ آنے والے دنوں میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مذہبی آزادی میں مخل ہونے کے دروازے بھی کھول دیے گیے ہیں۔ ناقدین کا سوال ہے کہ کیا جو اصول حجاب کے معاملے پر اپنایا گیا ہے، وہی کل سکھوں کی پگڑی اور ہندوؤں کے منگل سوتر پر بھی لاگو ہوگا؟
ہائی کورٹ فیصلے کی متاثرین عالیہ اور نبا کے سپریم کورٹ میں وکیل ایڈووکیٹ انس تنویر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی تشریح عدلیہ کے سپرد کرنا ہی درست قدم نہیں۔ مذہب کی تشریح کے لیے ماہرین دین سے رائے لینی چاہیے اور اسی بات کو انہوں نے اپیل کا حصہ بنایا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جمعرات کو اسی نوعیت کی ایک اور اپیل طالبہ عیشات شفا کے وکیل دیوا دت کامت نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسے فوری طور پر اس بنیاد پر سننے کی گزارش کی کہ مارچ کے اختتام سے باقاعدہ امتحانات کا آغاز ہو رہا ہے اور اگر اس پر فیصلہ نہ آیا تو طالبات کا ایک سال ضائع ہوجائے گا۔ تاہم عدالت نے اسے فوری نوعیت کا معاملہ قرار نہ دیتے ہوئے درخواست مسترد کر دی۔
اس تمام صورتحال کے درمیان حجاب پہننے والی طالبات تعلیم سے محروم ہیں اور شاید امتحانات سے بھی محروم رہ جائیں۔ ان کی امید اب بھارت کی سپریم کورٹ سے بندھی ہوئی ہے۔