رسائی کے لنکس

بھارت: تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی برقرار؛ 'حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں'، کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب تنازع پر منگل کو مسلم طالبات کی تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اپنےفیصلے میں قرار دیا ہے کہ حجاب پہننا مذہبِ اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔

چیف جسٹس ریتو راج اوستھی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 25 فروری کو محفوظ کردہ فیصلہ منگل کو سناتے ہوئے کہا کہ اسکول یونیفارم کا تعین ایک جائز پابندی ہے جس پر طلبہ اعتراض نہیں کر سکتے۔

عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ پانچ فروری کو ریاستی حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی سے متعلق جو حکم صادر کیا تھا اسے غلط ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں۔

خیال رہے کہ ریاستی حکومت نے پانچ فروری کو ریاستی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔بعدازاں کرناٹک کے ساحلی قصبے اوڈوپی کی چھ مسلم طالبات نے اس حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

طالبات نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ حجاب پہننا مذہبی آزادی کے تحت آتا ہےاور بھارت کا آئین اس کی ضمانت دیتا ہے۔

عدالت نےمنگل کو مسلم طالبات کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

ریاستی انتظامیہ نے عدالتی فیصلے سے ایک روز قبل جنوبی ضلع کنڑا کے تمام اسکولوں اور کالجوں کو ایک روز کے لیے بند کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔ ضلع بھر میں عوامی اجتماعات پر پابندی ہے جو 19 مارچ تک نافذ رہے گا۔

اسی طرح شیو موگا ضلع اور دیگر علاقوں میں بھی دفعہ 144نافذ کر دی گئی ہے۔

عدالت نے حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے لیے بنیاد کسے بنایا؟

چیف جٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا دیکشت اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل بینچ نے حجاب پر پابندی کے معاملے پر غور کے لیے چند سوالات اٹھائے تھے اور انہی کے جواب کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنایا۔

پہلا سوال۔ کیا حجاب پہننا اسلام کا لازمی جزو ہے؟ اس پر عدالت نے کہا کہ مذہبِ اسلام میں حجاب لازمی جزو نہیں ہے۔

دوسرا سوال۔ کیا اسکول یونیفارم درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق کے تناظر میں قانوناً جائز ہے؟ اس پر عدالت نے کہا کہ یونیفارم کی پابندی جائز ہے جس پر طلبہ اعتراض نہیں کر سکتے۔

تیسرا سوال۔ کیا پانچ فروری کا ریاستی حکومت کا حکم من مانا تھا اور کیا اس سے دستور کی فعہ 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہوتی ہے؟ عدالت نے اس کا نفی میں جواب دیا۔

بھارت میں حجاب تنازع: کون کیا کہہ رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:46 0:00

اس معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ میں 11 سماعتیں ہوئیں جن میں طالبات کی جانب سے متعدد سینئر وکلا نے بحث کی اور کہا کہ چوں کہ یہ معاملہ مذہبی آزادی کے تحت آتا ہے لہٰذا طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت ملنی چاہیے۔ دوسری جانب ریاستی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا نے اس کی مخالفت کی۔

خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں اوڈوپی کی مسلم طالبات کو حجاب پہن کر کلاس رومز میں داخلے سے روک دیا گیا تھا اور انہیں حجاب اتار کر کلاس رومز میں جانے کا کہا گیا تھا۔ بعدازاں ریاستی حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر ہی پابندی لگانے کا حکم صادر کیا تھا جسے طالبات نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

'طالبات تعلیم پر توجہ دیں'

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی نے بنگلور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص کو اس فیصلے کی پابندی کرنا اور اس کے نفاذ میں ریاستی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

انہوں نے امن و امان کی فضا برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کریں اور تعلیم پر توجہ دیں۔

کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا جنانیندرا نے بھی عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا اور بنگلور میں ایک بیان میں کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے پولیس نے احتیاطی اقدامات کیے ہیں۔

کرناٹک کے وزیر تعلیم سی بی ناگیش نے بھی فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ملک کا قانون سب سے اوپر ہے۔

عدالت کے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ حجاب مذہب کے بارے میں نہیں بلکہ اپنی پسند کا لباس پہننے کی آزادی کا معاملہ ہے۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ان کے بقول، "ایک طرف ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم انہیں حق سے محروم کر رہے ہیں۔"

مسلم پرسنل لا بورڈ کا ردِعمل

شرعی احکامات کےتحفظ کے لیے مسلمانوں کے غیر متنازع فورم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا اور کہاہے کہ وہ جلد ہی اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گا۔

بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حجاب سے متعلق عدالت کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ حجاب اسلام کا لازمی حکم نہیں۔ان کے بقول بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے شریعت کے بعض احکامات میں تساہل سے کام لیتے ہیں جیسے نماز نہیں پڑھتے اور روزہ نہیں رکھتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں۔

مولانا خالد سیف نے کہا کہ اپنی پسند کا لباس پہننا اور اپنی مرضی کے مطابق جسم کے بعض حصوں کو چھپانا اور بعض کو کھلا رکھناہر شہری کا دستوری حق ہے۔ اس میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی پابندی فرد کی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

'حکومت مسلم طالبات کو تحفظ فراہم کرے'

کرناٹک سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈی کے سریش نے نئی دہلی میں ایک بیان میں کہا کہ "آئین نے اسلام پر عمل کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ عدالت نے ایسا فیصلہ کیسے سنایا۔ ہم فیصلے کی تفصیلات کا انتظار کریں گے۔"

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک مسلم تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی طلبہ شاخ کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے فیصلے پر اظہار مایوسی کیا۔

رپورٹس کے مطابق سی ایف آئی کے صدر عطاءاللہ پنجل کٹی نے اپنے ردعمل میں کہا" ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت نے فیصلہ دیا ہے انصاف نہیں کیا۔ ہم مناسب فورمز پر حجاب پہننے کی قانونی لڑائی جاری رکھیں گے۔"

انڈین امریکن کونسل نے بھی ایک ٹوئٹ میں حجاب پر پابندی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہےاور کہا ہے کہ بھارتی دستور مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے اور حجاب سے متعلق عدالتی فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG