بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بدستور کشیدہ صورت حال ہے جہاں حکام نے پیر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق سری نگر اور دیگر اضلاع میں اسکولوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سری نگر میں 190 پرائمری اسکول کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا تاہم پیر کو اسکولوں میں کلاس رومز ویران رہے۔ جب کہ حکومتی ترجمان روہت کنسال کا دعویٰ ہے کہ صورت حال میں بتدریج بہتری آئے گی۔
بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے سے قبل نقص امن کے خدشے کے پیش نظر زیر انتظام کشمیر کے تعلیمی اداروں اور مواصلاتی رابطوں کی بندش کے علاوہ لوگوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
حکام نے چند روز قبل ہی جموں و کشمیر میں پابندیاں بتدریج ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت نقل و حرکت کو جزوی طور پر بحال کرنے کے علاوہ پرائمری تک تعلیمی ادارے کھولنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
والدین کا مؤقف ہے کہ جب تک مواصلاتی رابطے بحال نہیں ہو جاتے وہ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔ موجودہ حالات میں بچوں کو باہر بھیجنا ان کے لیے ممکن نہیں۔
ان کے بقول اگر ان کا اپنے بچوں سے رابطہ رہے گا تو انہیں یہ تسلی رہے گی کہ بچے محفوظ ہیں۔
ضلع بارہ مولہ کے رہائشی گلزار کا کہنا تھا کہ "ہم اپنے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں کیوں ڈالیں جب کہ ان کے اپنے ضلع میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔"
گلزار کے بقول سکیورٹی فورسز نے چھوٹے بچوں کو بھی حراست میں لیا ہے جب کہ بعض بچے احتجاج کے دوران زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ایسے میں گھر کی چار دیواری بچوں کے لیے سب سے محفوظ ٹھکانہ ہے۔
حکام گرفتاریوں کی خبروں کی تردید کرتے رہے ہیں ان کے بقول جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد حالات مجموعی طور پر معمول کے مطابق ہیں اور وادی میں کہیں بڑے مظاہرے نہیں ہوئے۔
'رائٹرز' کے مطابق سری نگر کے پریزینٹیشن کانوینٹ اسکول میں ایک ہزار بچے پڑھتے ہیں تاہم پیر کو صرف ایک طالب علم اسکول پہنچا۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار رتول جوشی نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سری نگر کے چار اسکولوں کا دورہ کیا اور صورتحال کو کچھ اس طرح بیان کیا۔
رتول جوشی کے مطابق سری نگر کا سب سے بڑا 'برن ہال اسکول' بھی ان اسکولوں میں شامل تھا جہاں پیر سے تدریسی عمل بحال ہونا تھا تاہم ایک بھی طالب علم اسکول نہیں پہنچا۔
"اسکول میں پرنسپل سمیت عملے کے کچھ ارکان موجود تھے اور ہمیں بھی یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی رکاوٹیں عبور کرنا پڑیں اور میڈیا کارڈ دکھانے کے بعد اسکول تک رسائی دی گئی۔"
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ نقل و حمل پر پابندیاں بتدریج کم کی جا رہی ہیں۔
اساتذہ کے مطابق جب تک کشمیر میں حالات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوں گے اُس وقت تک والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔
"ایک اور مرکزی اسکول کا دورہ کیا جہاں اندر جانے کی اجازت تو نہ ملی تاہم اس اسکول میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز اور پولیس ملازمین کے بچے پڑھتے ہیں۔ سول انتظامیہ کے زیر اثر نہ ہونے کے باعث یہ اسکول پانچ اگست کو ہی کھول دیا گیا تھا تاہم یہاں بھی حاضری 10 فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ 800 طلبا میں سے صرف 80 کے لگ بھگ حاضر تھے۔"
ہم نے بیمینا کے علاقے میں موجود پولیس پبلک اسکول تک پہنچنے کی کوشش کی تاہم احتجاج کی اطلاعات کے پیش نظر ہماری گاڑی سمیت دیگر کئی گاڑیوں کو واپس بھیج دیا گیا۔
بھارتی حکومت کا مؤقف
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں موجود حکومتی ترجمان روہت کنسال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں حالات بتدریج معمول پر آ رہے ہیں اور کاروباری مراکز بھی کھل رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ علاقے میں کرفیو میں نرمی کا دورانیہ چھ سے بڑھا کر آٹھ گھنٹے کر دیا گیا ہے اور اس دوران لوگ گھروں سے باہر نکل رہے ہیں اور اب تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
بچوں کے اسکول بھیجنے سے متعلق والدین کی تشویش سے متعلق سوال پر روہت کنسال کا کہنا تھا کہ یہ آغاز ہے آہستہ آہستہ والدین کا اعتماد بحال ہو جائے گا اور اسکولوں میں حاضری بھی بڑھ جائے گی۔