اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد دنیا بھر کی اقوام کے مابین تنازعات کے سیاسی حل کو یقینی بنانا ہے۔
سلامتی کونسل کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ دنیا بھر میں بد امنی کے شکار ممالک میں امن مشن بھجوانے سمیت کسی بھی ملک پر تعزیرات عائد کرسکتی ہے۔
یہ عالمی ادارہ فوجی کارروائی کے لیے قراردادیں منظور کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی سلامتی کونسل کا پہلا اجلاس 17 جنوری 1946 کو منعقد ہوا تھا۔
اپنے قیام سے لے کر اب تک متعدد عالمی تنازعات سلامتی کونسل میں لائے گئے جن پر سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کی گئی کئی قرار دادوں پر من و عن عمل ہوا تاہم تنازع کشمیر سمیت اب بھی بہت سے عالمی تنازعات سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی منظوری کے باوجود حل نہیں ہو سکے۔
سلامتی کونسل کی کارکردگی کو مختلف تنازعات حل کرانے پر سراہا بھی گیا ہے تاہم بعض معاملات پر سلامتی کونسل کی ناکامی کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے جن میں نسلی بنیادوں پر بوسنیا اور راوانڈا میں انسانوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کا اہم کردار
سینئر تجزیہ کار پروفسیر ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس کا سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل درآمد کے لیے کلیدی کردار ہوتا ہے۔
ان کے بقول سلامتی کونسل کی انہیں قرار دادوں پر عمل درآمد ہوتا ہے جن سے ان پانچ ممالک کے مفادات وابستہ نہ ہوں۔
کشمیر کے تنازع کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ اس معاملے پر بھارت اور پاکستان کی جنگ نہ ہو تاہم اس مسئلے کے حل کے معاملے پر یہ طاقتیں تقسیم ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق کوریا کی جنگ، مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان سمیت متعدد ممالک کے درمیان عالمی تنازعات کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل نے اپنا کردار ادا کیا ہے تاہم جب تک اس کی زیر التوا قرار دادوں پر عمل نہیں ہو جاتا اُس وقت تک اس کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھتے رہیں گے۔
سلامتی کونسل کی 73 سالہ کارکردگی اور اس کی جانب سے حل کیے گئے عالمی تنازعات اور ناکامی کا جائزہ کچھ اس طرح ہے۔
سلامتی کونسل کی جن قرار دادوں پر عمل نہیں ہوا
1۔ تنازع کشمیر
ہندوستان کی تقسیم کے دوران 1947 میں کشمیر کے الحاق کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین تنازع کھڑا ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان 1948 میں پہلی جنگ کشمیر کے محاذ پر ہوئی۔
اس جنگ کے بعد کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے کنٹرول میں آگیا جب کہ دوسرا بھارت کے زیر اثر چلا گیا۔
پاکستان کا یہ مؤقف تھا کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق مسلمان اکثریت رکھنے والے علاقوں کا قدرتی الحاق پاکستان سے ہونا چاہیے جب کہ بھارت کا یہ اصرار تھا کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کی حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت کشمیر کا الحاق بھارت سے کیا ہے۔
جنگ کے دوران بھارت نے یہ معاملہ پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں اٹھایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948 کو قرارداد نمبر 47 پاس کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے۔
سلامتی کونسل کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر متعدد قراردادوں کی منظوری کے باوجود مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے۔
بھارت کی جانب سے حال ہی میں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے اقدام کے بعد ایک بار پھر یہ مسئلہ 50 سال بعد 16 اگست کو سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا تاہم اس معاملے پر سلامتی کونسل کا دو ٹوک مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
2۔ مسئلہ فلسطین
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تنازع کشمیر کی طرح عرب اسرائیل تنازع پر متعدد قرار دادیں منظور کر چکی ہے تاہم یہ مسئلہ بھی اب حل طلب ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق اسرائیل اور فلسطین سے متعلق امریکہ ہر اس قرار داد کو ویٹو کرتا رہا ہے جس سے اسرائیل کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
بائیس نومبر 1967 کو سلامتی کونسل نے ایک قرار داد منظور کی جس میں اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد مفتوحہ فلسطینی علاقے خالی کر دے تاہم اسرائیل نے آج تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔
سلامتی کونسل نے امریکہ کے اس اقدام پر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس فیصلے کی مخالفت کی گئی تاہم امریکہ نے اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔
3۔ بوسنیا ہرزیگوینا
سلامتی کونسل نے 16 اپریل 1993 کو بوسنیا ہرزیگوینا میں نسلی بنیادوں پر قتل عام روکنے اور امن وامان بحال کرنے کے لیے قراردار نمبر 819 متفقہ طور پر منظور کی۔
قرارداد کے تحت بوسنیا کے مشرقی علاقوں میں سرب فوج کو کارروائیاں روکنے پر زور دیا گیا۔ سربرینیکا کے علاقے کو ہر طرح کے تشدد سے محفوظ علاقے کا درجہ بھی دیا گیا۔
سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری کے باوجود جولائی 1995 میں اس علاقے میں لگ بھگ 8 ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا گیا۔
عالمی امور کے ماہر پروفیسر اقبال چاؤلہ کا کہنا ہے کہ مسلمان ممالک کو سلامتی کونسل سے یہ گلہ رہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً سلامتی کونسل کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کی چیدہ قراردادیں جن پر عمل ہوا
1۔ مشرقی تیمور
سنہ 1975 تک پرتگال کے زیر اثر رہنے والے مشرقی تیمور پر انڈونیشیا نے قبضہ کر لیا تھا تاہم مشرقی تیمور میں آزادی کی تحریک جاری رہی۔
سلامتی کونسل نے 15 ستمبر 1999 کو قراردار نمبر 1264 منظور کی جس کے تحت مشرقی تیمور کے عوام کو استصواب رائے کا حق دیا گیا۔
رائے شماری کے بعد مشرقی تیمور انڈونیشیا سے الگ ہو کر الگ ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ تاہم نوزائیدہ ریاست میں انڈونیشیا نواز قوتوں نے ہنگامے شروع کر دیے جس پر اقوام متحدہ نے امن وامان کا قیام یقینی بنانے کے لیے مختلف اقوام پر مشتمل امن مشن مشرقی تیمور بھیجا اور یوں مسئلہ حل ہوا۔
2۔ جنوبی سوڈان الگ ریاست کا قیام
سوڈان میں سالہا سال سے جاری خانہ جنگی کے بعد 8 جولائی 2011 کو سلامتی کونسل کے 5 مستقل اور 10 غیر مستقل اراکین نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت جنوبی سوڈان کو علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
سال 2011 کے آغاز میں جنوبی سوڈان کے لیے رائے شماری کرائی گئی جس میں اکثریت نے شمالی سوڈان سے الگ ایک نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو 'قرارداد 1996' کا نام دیا گیا۔
3۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ
امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد 12 ستمبر کو سکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں قرارداد نمبر 1368 منظور کی گئی جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کی منظوری دی گئی۔
ماہرین کے مطابق سلامتی کونسل کی اس قرارداد نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو وہ جواز فراہم کیا جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔
پروفیسر اقبال چاؤلہ کہتے ہیں کہ جس طرح لیگ آف نیشن ناکام ہوئی اور جرمنی اس سے نکل گیا اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اسی طرح سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے یہ خدشہ ہے کہ کہیں یہ عالمی ادارہ بھی غیر فعال نہ ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل سلامتی کونسل کے لیے بڑا امتحان ہے۔ اگر وہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرا سکی تو خدانخواستہ جنوبی ایشیا میں جنگ کے خطرے کو ٹالنا مشکل ہو سکتا ہے۔