کراچی —
پاکستان کے سب سے بڑے شہر 'کراچی' میں ایک اسکول ایسا بھی ہے جہاں اساتذہ تو پابندی سے اسکول آتے ہیں، مگر وہاں پڑھنے والا کوئی طالبعلم نہیں ہے۔
یہ اسکول ایم اے جناح روڈ میں واقع ہے، جسے شہر کی سب سے مصروف شاہراہ کا درجہ حاصل ہے۔ اس مرکزی علاقے میں قائم لڑکیوں کا اسکول، طالبات سے محروم ہے۔
’گورنمنٹ جے- ایم- بی گورنمنٹ گرلز اسکول‘ کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اسکول کیا ہے صرف ایک عمارت یا کوئی بھوت بنگلہ۔ ویران راستہ۔ ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں۔ کلاس روم کے دروازے بند ۔ ان پر تالا۔
اسکول اساتذہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ کے پوچھنے پر بتایا کہ، ’اس اسکول میں 300 طالبات زیر تعلیم تھیں۔ مگر اسکول کی عمارت کی خطرناک صورت حال، محکمہ تعلیم کی مبینہ غفلت اور اسکول کی خستہ حالی کے باعث، آہستہ آہستہ تمام طالبات اسکول چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔‘
اساتذہ نے مزید بتایا کہ ’اسکول انتظامیہ کی جانب سے محکمہٴ تعلیم کو عمارت کی مرمت کیلئے کئی خطوط لکھے گئے ہیں۔ مگر، ابھی تک ایسا کوئی کام شروع نہیں کیا جا سکا'۔
ایک اور لیڈی ٹیچر کا کہنا تھا کہ ’ہم اساتذہ پابندی سے حاضر رہتے ہیں۔ جب صوبائی محکمہ تعلیم اس اسکول کی جانب توجہ دے گی، تو اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع ہوگا۔ پھر، اسکول میں دوبارہ تدریسی نظام بحال ہوسکے گا‘۔
اسکول کے باہر موجود دکانداروں نے بتایا کہ ’ہم تقریباً دو سال سے اسکول کو اِسی حالت میں دیکھ رہے ہیں ۔ پہلے تو کافی بچے پڑھتے تھے۔ مگر، اب بس ٹیچرز اور اسکول اسٹاف ہی نظر آتا ہے‘۔
ایک شہری نے اسکول اور تعلیم کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسکول میں کوئی تعلیمی سلسلہ نہیں تو، اصولاً اسے بند کردینا چاہئے۔ مگر، اسکول کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے، معلوم ہوتا ہے کہ اساتذہ کی حاضری صرف تنخواہ حاصل کرنے کیلئے ہے‘۔
یہ اسکول ایم اے جناح روڈ میں واقع ہے، جسے شہر کی سب سے مصروف شاہراہ کا درجہ حاصل ہے۔ اس مرکزی علاقے میں قائم لڑکیوں کا اسکول، طالبات سے محروم ہے۔
’گورنمنٹ جے- ایم- بی گورنمنٹ گرلز اسکول‘ کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اسکول کیا ہے صرف ایک عمارت یا کوئی بھوت بنگلہ۔ ویران راستہ۔ ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں۔ کلاس روم کے دروازے بند ۔ ان پر تالا۔
اسکول اساتذہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ کے پوچھنے پر بتایا کہ، ’اس اسکول میں 300 طالبات زیر تعلیم تھیں۔ مگر اسکول کی عمارت کی خطرناک صورت حال، محکمہ تعلیم کی مبینہ غفلت اور اسکول کی خستہ حالی کے باعث، آہستہ آہستہ تمام طالبات اسکول چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔‘
اساتذہ نے مزید بتایا کہ ’اسکول انتظامیہ کی جانب سے محکمہٴ تعلیم کو عمارت کی مرمت کیلئے کئی خطوط لکھے گئے ہیں۔ مگر، ابھی تک ایسا کوئی کام شروع نہیں کیا جا سکا'۔
ایک اور لیڈی ٹیچر کا کہنا تھا کہ ’ہم اساتذہ پابندی سے حاضر رہتے ہیں۔ جب صوبائی محکمہ تعلیم اس اسکول کی جانب توجہ دے گی، تو اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع ہوگا۔ پھر، اسکول میں دوبارہ تدریسی نظام بحال ہوسکے گا‘۔
اسکول کے باہر موجود دکانداروں نے بتایا کہ ’ہم تقریباً دو سال سے اسکول کو اِسی حالت میں دیکھ رہے ہیں ۔ پہلے تو کافی بچے پڑھتے تھے۔ مگر، اب بس ٹیچرز اور اسکول اسٹاف ہی نظر آتا ہے‘۔
ایک شہری نے اسکول اور تعلیم کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسکول میں کوئی تعلیمی سلسلہ نہیں تو، اصولاً اسے بند کردینا چاہئے۔ مگر، اسکول کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے، معلوم ہوتا ہے کہ اساتذہ کی حاضری صرف تنخواہ حاصل کرنے کیلئے ہے‘۔