سائنس دانوں کا ایک گروپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر صدیوں سے جمی برف پر نمودار ہونے والے خون کی رنگت کے سرخ دھبوں کی تحقیق کر رہا ہے۔ ان سرخ دھبوں کو "برف کا خون" کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک سائنس دان کا نام ایرک میرکل ہے۔ انہوں نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں سطح سمندر سے 2500 میٹر بلندی سے اکھٹے کیے گئے برف کے خون کے نمونے محفوظ کیے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی کائی ہے جس کی رنگت سبز کی بجائے سرخی مائل ہوتی ہے۔ یہ انتہائی بلندی پر موجود برف کے اوپر پھلتی پھولتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہیں فکر اس بات کی ہے کہ اس سرخ کائی کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے اور اگر اسے پھیلنے سے نہ روکا گیا تو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چاندی کی طرح چمکتی ہوئی برف سرخی مائل پڑ جائے گی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ دیکھنے میں کیسے لگے گی۔ پریشانی یہ ہے کہ اس کے پھیلاؤ سے آب و ہوا کی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے ریسرچ ڈائریکٹر میرکل کہتے ہیں کہ کائی سبز رنگ کی ہوتی ہے، لیکن جب یہ برف پر ہو تو وہ خود کو سورج کی تیز شعاعوں سے بچانے کے لیے اپنے اندر ایک خاص جزکو اکھٹا کر لیتی ہے جو سن سکرین یعنی سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھنے عنصر کے طور پر کام کرتا ہے۔
میرکل نے ’برف کے خون‘ کے نمونے اپنی ایک ٹیم کے ہمراہ ایک پہاڑی سلسلے ’ لی بریونٹ‘ سے اکھٹے کیے تھے۔
سرخ رنگ کی کائی کو پہلے پہل تیسری صدر قبل مسیح میں فلاسفر اور مفکر ارسطو نے دریافت کیا تھا۔ جسے بعد ازاں 2019 لاطینی زبان کا نام سیگونیا نیوالوئیز دیا گیا تھا۔
سائنس دان برفانی چٹانوں پر سرخ کائی پیدا ہونے اور اس کے پھیلنے کے اسباب معلوم کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں اور وہ اس سے قبل کہ مزید تاخیر ہو جائے، آب و ہوا میں تیزی آنے والی تبدیلیوں کے تناظر میں اس کی روک تھام کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت پہاڑوں پر موجود برف پر غیر متناسب طریقے سے اثرانداز ہو رہا ہے۔
میرکل کہتے ہیں کہ اس کائی کے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کی دوہری وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ وہ علاقہ ہے جس پر ماضی میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے اور اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں کی برف ہماری آنکھوں کے سامنے بہت تیزی سے پگھل رہی ہے۔
فرانس کے سی ای اے سینٹر فار گرنوبل کے جینیٹک انجنیئرنگ ریسرچر البرٹو امانو کہتے ہیں کہ ان چٹانوں پر جتنی بڑی تعداد میں کائی ابھر رہی ہے اس کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحول میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا بھاری مقدار میں جمع ہونا ہے۔
یہاں پر سائنسی تحقیق جاری ہے اور جو چیز یقینی ہے وہ یہ ہے کہ کائی کی موجودگی سے برف کے پگھلاؤ میں تیزی آئے گی، کیونکہ کائی کی تبدیل شدہ رنگت سے سورج کی حرارت کو واپس فضا میں بھیجنے کی برف کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے۔
کائی کی دوسری اقسام جن میں نارنجی کائی بھی شامل ہے اور اسی طرح جنگلات میں آتشزدگیوں کے نتیجے میں اٹھنے والے دھوئیں اور جلے ہوئے ذرات بھی دنیا بھر میں گلیشیئرز کو پگھلانے میں یہی کردار ادا کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر برفانی علاقوں میں کائی کا پھیلاؤ بڑھتا رہا تو دنیا بھر میں گلیشیئرز کے پگھلاؤ کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔
امانو کہتے ہیں کہ جیسے جیسے کرہ ارض گرم ہو گی، برف پر کائی کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح کا بدی کا چکر ہے اور ہم اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو کائی کے افزائش تیز ہو جاتی ہے اور جب کائی بڑھتی ہے تو وہ برف سے سورج کی حرارت کو واپس لوٹا دیتی ہے جس سے درجہ حرارت اور برف کے پگھلاؤ دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
امانو کا کہنا تھا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس مسئلے سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔
(اس مضمون کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)