رسائی کے لنکس

امریکی ساحلوں پر کچھوؤں کے ریکارڈ انڈے، لیکن بقا کو لاحق خطرہ بدستور موجود


لاگرہیڈ نسل کے کچھوے ساحل سے سمندر کی طرف جا رہے ہیں۔ امریکی ساحلی علاقوں میں سات اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں۔
لاگرہیڈ نسل کے کچھوے ساحل سے سمندر کی طرف جا رہے ہیں۔ امریکی ساحلی علاقوں میں سات اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں۔

گرمیوں کے اس موسم میں امریکہ کے ساحلی علاقوں میں، لاکھوں برسوں کی طرح اس سال بھی کچھوؤں نے سمندر سے رینگتے ہوئے نکل کر، ساحلی ریت کھود کر اپنے گھروندے بنائے اور ان میں انڈے دیے ہیں۔

لیکن اس سال کی منفرد اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھووں کے گھروندوں نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڈ دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف فلوریڈا کے ساحلی علاقوں میں لاگر ہیڈ نسل کے کچھوؤں کے ایک لاکھ 34 ہزار کے لگ بھگ گھروندوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔

سبز رنگت کی نسل کے کچھوؤں کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں اور ساحلوں پر ان کے گھروندوں کی گنتی ساڑھے 76 ہزار سے زیادہ ہے۔

کچھوؤں کے گھروندوں کی تعداد نے اس سے قبل قائم ہونے والے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

آبی حیات کے تحفظ کے ایک کارکن نے ہاکس بل نسل کے کچھوے کو اٹھا رکھا ہے۔ فائل فوٹو
آبی حیات کے تحفظ کے ایک کارکن نے ہاکس بل نسل کے کچھوے کو اٹھا رکھا ہے۔ فائل فوٹو

یہ اضافہ صرف کچھوؤں کی دو نسلوں کے گھروندوں میں ہی نہیں ہوا بلکہ دیگر نسلوں کے کچھوؤں کے گھروندوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔

امریکی ساحلوں پر کچھووں کی سات اقسام پائی جاتی ہیں

امریکی ساحلوں پر عموماً سات نسلوں کے کچھوئے دیکھے جاتے ہیں جنہیں لاگرہیڈ، گرین، لیدر بیک، باکس ہل، کیمپس رڈلی، اولورڈلی اور فلیٹ بیک کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔

لیدر بیک نسل کا ایک کچھوا۔ فائل فوٹو
لیدر بیک نسل کا ایک کچھوا۔ فائل فوٹو

کچھوؤں کی یہ ساتوں نسلیں ، جنگلی حیات کی ان اقسام میں شامل ہیں جن کی نسلیں یا تو ختم ہو رہی ہیں یا تیزی سے گھٹتی جا رہی ہیں۔

کچھوؤں کے گھروندوں میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے اور وہ ریتلے ساحلی علاقے غرقاب ہوتے جا رہے ہیں جہاں کچھوے اپنے گھروندے بناتے ہیں اور انڈے دیتے ہیں۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان گھروندوں میں اضافے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کچھوؤں کی نسلیں خطرے سے باہر نکل رہی ہیں۔

مادہ کچھوا 110 سے زیادہ انڈے دیتی ہے

یہ بات بھی آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ مادہ کچھوا، مناسب جگہ پر ساحلی ریت کھود کر انڈے دیتی ہے اور پھر انہیں ریت سے ڈھانپ کر چھپا دیتی ہے۔ ان انڈوں کی تعداد عموماً 110 کے لگ بھگ ہوتی ہے تاہم کئی واقعات میں یہ تعداد 200 سے زیادہ بھی دیکھی گئی ہے۔

کلیئر واٹر میرین ایکوریم میں کچھوؤں کے تحفظ کے مرکز کے ایک سینئر ماہر حیاتیات کیرلی اوکلے کہتے ہیں کہ مادہ کچھوے عموماً تین سال میں ایک بار انڈے دیتے ہیں۔ انہیں انڈوں کے لیے گھروندا بنانے میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام ہوتا ہے۔

نیو انگلیڈ ایکوریم کی خاتون میڈیکل کارکن کیمپلز رڈلی نسل کے ایک کچھوئے کا معائنہ کر رہی ہیں۔فائل فوٹو
نیو انگلیڈ ایکوریم کی خاتون میڈیکل کارکن کیمپلز رڈلی نسل کے ایک کچھوئے کا معائنہ کر رہی ہیں۔فائل فوٹو

کچھوے کے ایک ہزار بچوں میں سے ایک ہی زندہ بچتا ہے

اتنی بڑی تعداد میں انڈے دینے کے باوجود کچھوؤں کی آبادی میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈوں سے نکلنے والے لگ بھگ ایک ہزار بچوں میں سے صرف ایک ہی زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

کچھووں کے بچوں کے دشمن لاتعداد ہیں۔جیسے ہی وہ انڈے سے نکل کر سمندر کی طرف رینگنا شروع کرتے ہیں ، ان کی تاک میں بیٹھے ہوئے جنگلی جانور اور پرندے انہیں جھپٹ لیتے ہیں۔ اگر وہ پانی میں پہنچنے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو مچھلیاں منہ کھولے ان کی منتظر ہوتی ہیں۔

ساحلی علاقوں کی روشنیاں کچھوۂں کے بچوں کو راستے سے بھٹکا دیتی ہیں

کچھوؤں کے بچے اپنے دشمنوں سے بچنے کے لیےرات کے وقت ریت سے نکل کر سمندر کی جانب رینگنا شروع کرتے ہیں۔ وہ اپنی سمت کا تعین چاند اور ستاروں کی روشنی سے کرتے ہیں۔مگر ساحلی علاقوں میں نصب برقی قمقموں کی روشنیاں انہیں اپنے راستے سے بھٹکا دیتی ہیں اور ان میں سے اکثر سمندر کی بجائے ساحل کی طرف رینگنا شروع کردیتے ہیں اور بالآخر کسی جانور یا پرندے کے معدے میں جا پہنچتے ہیں۔

ایک گدھ کچھوے کے تعاقب میں۔
ایک گدھ کچھوے کے تعاقب میں۔

گلوبل وارمنگ سے کچھوؤں کی بقا کو خطرہ ہے

آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں گرم ہوتے ہوئے موسم بھی کچھوؤں کے دشمن ہیں۔ جیسے جیسے کرہ ارض گرم ہو رہا ہے، سمندری طوفانوں کی تعداد اور ان کی شدت بڑھ رہی ہے، جو ان کے گھروندوں اور انڈوں کو بہا لے جاتے ہیں۔

اس سال فلوریڈا کے ایک ساحلی علاقے میں جہاں کچھوؤں کے انڈوں کی 75 جگہوں کی نشاندہی ہوئی تھی ،ان میں سے زیادہ تر کو اگست میں آنے والا سمندری طوفان اڈیلیا بہا لے گیا تھا۔

سمندروں کے تحفظ سے متعلق ایک بین الاقوامی تنظیم اوشیانا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرم ہوائیں ساحلی ریت اور سمندر کی لہروں پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کا کچھوؤں پر منفی اثر پڑ رہا ہے کیونکہ وہ ریت کو انڈے دینے ، اور سمندری لہروں کو نقل مکانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی ان کی نسل کی بقا کے خطرات میں اضافہ کررہی ہے۔

گرین نسل کا کچھوا۔ فائل فوٹو
گرین نسل کا کچھوا۔ فائل فوٹو

گرم موسم میں انڈوں سے مادہ کچھوے نکلتے ہیں

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ریت کا درجہ حرارت انڈے سے نکلنے والے کچھوے کے بچے کی جنس کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے حیاتیات سے متعلق ماہرین کہتے ہیں کہ عام طور پر گرم درجہ حرارت میں انڈے سے مادہ کچھوا نکلنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نرکچھووں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔

کچھوئے 100 سال سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں

سمندری حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے سائز کے کچھوئے اکثر اوقات 100 سال سے زیادہ عمر پاتے ہیں۔ بعض کچھوؤں کے بارے میں 150 سال تک زندہ رہنے کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔لیکن چھوٹے اور درمیانے حجم کے کچھوؤں کی عمومی طبعی عمریں 10 سے 70 سال تک دیکھی گئیں ہیں۔

وائلڈ لائف کے کارکن دبئی میں ایک کچھوئے کو سمندر میں چھوڑنے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں کچھوؤں کی دیکھ بھال کے مرکز کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران وہ 500 سے زیادہ زخمی کچھوؤں کا علاج کر کے انہیں سمندر میں چھوڑ چکے ہیں۔ 6 جون 2023۔ فوٹو اے پی
وائلڈ لائف کے کارکن دبئی میں ایک کچھوئے کو سمندر میں چھوڑنے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں کچھوؤں کی دیکھ بھال کے مرکز کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران وہ 500 سے زیادہ زخمی کچھوؤں کا علاج کر کے انہیں سمندر میں چھوڑ چکے ہیں۔ 6 جون 2023۔ فوٹو اے پی

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہیل اور دیگر بہت بڑے سائز کے سمندری جانداروں کی طرح بڑے کچھوئے بھی 500 سال کے لگ بھگ تک جیتے ہیں۔لیکن یہ محض قیاس ہے اور اس بارے میں سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں۔

گلوبل وارمنگ سے کچھوؤں کی بقا خطرے میں ہے

امریکی ریاست ساؤتھ کیرولائنا کے ڈیپارٹمنٹ آف نیچرل ریسورسز کی ایک ماہر حیاتیات مشیل پیٹ کہتی ہیں کہ ساحلی علاقوں میں کچھوؤں کے ریکارڈ تعداد میں گھروندوں پر ہمیں اس لیے خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی نسل کو درپیش خطرے میں کمی ہو رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انڈوں سے نکلنے والے ہزار سے زیادہ بچوں میں سے صرف ایک ہی پروان چڑھتا ہے اور ہمیں اس پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ جس رفتار سے زمین گرم ہو رہی ہے، 20 یا 30 سال کے بعد ساحلوں پر ایسی کتنی جگہیں باقی رہ جائیں گی جہاں کچھوے انڈے دے سکیں ۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG