معروف تجزیہ کار ، احمر بلال صوفی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے جنگی جرائم، نسل کُشی اور ہائی جیکنگ کے جرائم کی طرح بحری قزاقی ایک سنگین بین الاقوامی جرم ہے، جس کی سزا عمومی طور پر موت ہوا کرتی ہے، ماسوائے اُن ملکوں کے جہاں کے اپنے پینل کوڈ میں موت کی سزا کی جگہ عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہو۔
اُنھوں نے یہ بات ‘قزاقی اوربین الاقوامی قانون’ کے عنوان پر منگل کو وائس آف امریکہ پر ایک راؤنڈ ٹیبل میں کہی۔
تحویل سے متعلق قانون کے حوالے سےایک سوال پر اُنھوں نے کہا کہ زیادہ تر ملکوں کےدرمیان باہمی معاہدے ہیں، جن میں جنوبی امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں۔
راؤنڈ ٹیبل کے دیگر شرکا میں وائس ایڈمرل سید اقتدار حسین، دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود، سیاٹل کےسینٹر فور جسٹس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طیب محمود، آکسفورڈ لندن کے شعبہٴ بین الاقوامی امور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اشتیاق احمد اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کےلیفٹیننٹ کمانڈرخالد شاہ شامل تھے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ واضح بین الاقوامی قوانین کےہوتے ہوئے پچھلے چار برسوں کے دوران کچھ سمندری علاقوٕں میں قزاقی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے، جیسا کہ صومالیہ اور یمن کا علاقہ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اِس سے قبل،2000ء سے 2006ء تک بحری قزاقی کے 2400واقعات سامنے آئے تھے، جِن میں سال 2010ء میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پچھلے سال، بحری قزاقوں نے نہ صرف کئی بحری جہازوں پر حملے کیے بلکہ متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا۔
یہ معلوم کرنے پر کہ بھارت نے حال ہی میں کچھ قزاقوں کو گرفتار کیا ہے کیا بھارت اُن پر بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے ہی ملک میں مقدمہ چلا سکتا ہے، احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ مروجہ قانون کے مطابق جس ملک کی بحری حدود میں قزاقی کا واقعہ ہوا ہو، اُسےمکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے قانون کے تحت ملزموں پر مقدمہ چلائے اور سزا سنائے۔ اگر کوئی ملک اپنی حدود میں مقدمہ نہ چلانا چاہتا ہو تو یہ اُس ملک کے داخلی صوابدید کا معاملہ ہوگا۔
اُن کے خیال میں جن ملکوں نےقیدیوں کے لیے اپنی ملکی حدود سے باہر جیلیں بنا رکھی ہیں، وہ معاملہ کئی اعتبار سے مختلف نوعیت کا ہے۔
سابق وائس ایڈمرل سید اقتدار حسین کا کہنا تھا کہ چند ہی ممالک ایسے ہیں جن کے پاس اِس قسم کی بحری جنگی صلاحیت موجود ہے جو بین الاقوامی سمندری پانیوں میں اپنے جہاز بھیجنے کے قابل ہیں۔ مثلاً چین فی الحال ایک ہی وارشپ اِس وقت بحر عرب میں بھیج سکا ہے۔ اُنھوں نےبتایا کہ حالانکہ پاکستان بحریہ اتنی بڑی نہیں لیکن پھر بھی اُس کا ایک فریگیٹ اور ایک ڈسٹرائر مستقل طور پرعلاقے کے سمندری حدو د میں نیٹو ٹاسک فورس کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ علاقے میں امریکہ کے علاوہ، بھارت، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا کے بحری بیڑے موجود ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی میری ٹائم قانون کے تحت ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ کوئی بھی قزاقی کر رہا ہو، اُس جہاز کو پکڑا جا سکتا ہے۔ لیکن وسائل کے حساب سے دنیا کے چند ہی ممالک ہیں جو اپنے جنگی جہاز اِن علاقوں میں بھیج سکتے ہیں۔
دریں اثنا، بحری قزاقی سےمتعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحری قزاقوں نے اپنے مجرمانہ عزائم کےلیے جی پی ایس ٹیکنالوجی، برق رفتار بوٹس اورسیٹلائٹ ٹیلی فون کا استعمال کیا ہے۔