پاکستانی سیاست میں عمران خان کی تحریکِ انصاف نے جو ہلچل مچا رکھی ہے ۔ اس پر روزانہ ہی کسی نہ کسی ٹاک شو میں ایک ملاکھڑا دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ انصاف، میرٹ، کارکردگی، کرپشن کا خاتمہ اور جانے کون کون سے وعدے کر رہے ہیں عمران خان۔ لیکن میں جب بھی اس بارے میں سوچتا ہوں مجھے قصور کا جلسہ یاد آ جاتا ہے۔ انصاف کے منتظر عوام نے اس جلسے کے بعد جس طرح ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں کرسیاں چرائیں اور بھاگےعمران خان اس کے بارے میں کیا کریں گے۔
کرپشن اور چوری صرف پاکستانی حکومت کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جو ایمانداری دکھائے گا اسے جانا پڑے گا۔
میرے ایک عزیز شاہ صاحب خیبر پختون خواہ کی مقامی حکومت کے محکمہء لائیو سٹاک میں ملازمت کرتے تھے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے فل برائٹ سکالرشپ پر کینڈا آئے ۔ جنیٹکس (Genetics) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد واپس پاکستان گئے اور دوبارہ ملازمت جوان کر لی۔ ادارے میں ڈپٹی ڈاریکٹر کی کچھ آسامیاں خالی تھیں کیونکہ شاہ صاحب ادارے میں واحد پی ایچ ڈی تھے اس لیے وہ ڈپٹی ڈاریکٹر بننے کے مکمل اہل تھے۔ اور یہی ان کی غلطی تھی۔
سیکشن افسران نے پہلے تو ان کی پڑھائی کے لیے لی جانے والی چھٹی کے کاغذات غائب کر دیے۔ اور کہا کہ آپ اپنی پڑھائی کے عرصے کو ایکس پاکستان لیو کروا لیں ۔ مقصد یہ تھا کہ سروس کی مدت کم ہوجائے اور شاہ صاحب کے بجائے وہ آسامی بھی کسی سیکشن افسر کو مل جائے۔ کیونکہ شاہ صاحب تیس پینتیس سال کی عمر ڈپٹی ڈاریکٹر بن جاتے تو سیکشن افسر صاحب کا تو نمبر ہی نہ آتا۔ خیر شاہ صاحب نے نہ رشوت دی اور نہ ہی سیکشن افسروں کی تجویر مانی ۔ چھٹی کا معاملہ حل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی تھی۔ بال آخر سیکشن افسران اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور شاہ صاحب نے ملازمت سے استعفیٰ دے کر نہ صرف ادارہ بلکہ کچھ عرصے بعد ملک بھی چھوڑ دیا۔
شاہ صاحب اب ایک امریکی یونیورسٹی میں ریسرچ سائنسدان کے طور پر کینسر پر تحقیق کر رہے ہیں۔