اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بدھ کو لیبیا کے بحران سے متعلق ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرے گی۔ لیبیا سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہے جہاں عسکریت پسند گروپ اور بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت علاقوں پر تسلط کے لیے برسر پیکار ہیں۔
ہمسایہ ملک مصر کی حکومت نے رواں ہفتے شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے 21 مصری قبطی عیسائیوں کے سر قلم کرنے کے بعد یہاں کی صورت حال پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔
مصر کے وزیر خارجہ سمیع حسن شکری نے منگل کو نیویارک میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ عرب سفارت کار ایک ایسی قرار داد پر کام کر رہے ہیں جس میں عسکریت پسندوں کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے اقدام بھی شامل ہیں جو 2011ء میں معمر قذافی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے جاری ہے۔
سمیع نے کہا کہ "(لیبیا کی) جائز حکومت کو سخت امداد کی ضرورت ہے چاہے یہ سیاسی ہو یا فوجی سازو سامان کی فراہمی کی صورت میں ہو جو کہ سلامتی کونسل نے روک رکھی تھی تاکہ لیبیا کی عوام اور لیبیا میں دوسرے ملکوں کے شہریوں کی حفاظت کر سکے"۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیبیا میں سیاسی تصفیے سے جہاں طرابلس میں متوازی حکومتیں کام کر رہی ہیں، عسکری نظریے کا خاتمہ نہیں ہو گا۔
قرارداد کا مسودہ بدھ کو پیش کیے جانے کی توقع ہے۔
مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے منگل کو سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ لیبیا میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کی اجازت دے جہاں مصر نے اس ہفتے داعش کے ٹھکانوں کو فضائی کارروائیوں میں نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ زید رعدالحسن لیبیا میں مصریوں کے قتل کو "لوگوں کو ان کے مذہب کی بنا پر قتل کرنے کو ایک نفرت انگیز جرم قرار د یا"۔
واشنگٹن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور اسپین کے عہدیداروں نے لیبیا میں ہوئی دہشت گرد کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
عہدیداروں نے بیان میں کہا کہ "لیبیا میں 21 مصری شہریوں کے گھناؤنا قتل ایک بار پھر لییبا کے بحران کے سیاسی حل کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے اور جس (بحران) کا جاری رہنا صرف دہشت گرد گرپوں کے مفاد میں ہے"۔