مصر کے صدر عبد الفتح السیسی نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک قرارداد منظور کرنے پر زور دیا ہے، جس کی رو سے لیبیا میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کا اختیار حاصل ہو سکے۔
السیسی نے یہ بات فرانس کے 'یورپ ون ریڈیو' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔
اس سے ایک ہی روز قبل، مصر کی افواج نے لیبیا کےمشرقی شہر، درنہ میں داعش کے شدت پسندوں کو ہدف بنانے کے لیے فضائی کارروائیاں کیں۔ یہ بمباری شدت پسندوں کے ہاتھوں مصر کے 21 قبطی مسیحیوں کے سر قلم کرنے کا بدلہ لینے کے لیے کی گئی۔
بقول اُن کے، 'لیبیا کی عوام اور حکومت کی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں، جو ہم سے اقدام کا تقاضا کر رہے ہیں'۔
قتل کی یہ واردات اُس خلفشار کی ایک تازہ مثال ہے جو لیبیا میں جاری ہے، جہاں سابق لیڈر معمر قذافی کی ہلاکت کے چار برس بعد،متوازی عمل داری اور لڑاکا ملیشیائوں کی اقتدار کے حصول کی جنگ جاری ہے۔
باغیوں کی جانب سے قذافی کو ہٹائے جانے کی جدوجہد کے دوران، اقوام متحدہ نے لیبیا پر فضائی حملوں کا اختیار دیا تھا، جس کے تحت ملک کے شہریوں کے تحفظ کے لیے نیٹو کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ لیبیا کی افواج کے خلاف حملے کر سکتا ہے۔
لیبیا کی فضائی فوج نے، جسے ملک کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی حمایت حاصل ہے، پیر کے روز مصر کی طرف سے فضائی کارروائیاں کرنے میں شریک تھی، جن میں فوجی اہل کاروں کے بقول، درجنوں شدت پسند ہلاک، جب کہ متعدد شہری ہلاک ہوئے۔
طرابلس میں قائم متحارب پارلیمان نے، جسے چند اسلام نواز گروہوں کی حمایت حاصل ہے، اِن فضائی کارروائیوں کو بین الاقوامی قانون اور لیبیا کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قبطی مسیحیوں کے سر قلم کرنے کے دہشت ناک واقع کی مذمت کرتے ہوئے، کہا ہے کہ 'یہ گھنائونا جرم ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ اسلام پرست شدت پسند گروہ، جو ہزاروں افراد کے قتل؛ اور مختلف مذاہب، نسل اور قومیتوں کے خلاف زیادتیوں کا مرتکب ہے، اُسے بنیادی انسانی اقتدار کی پاسداری کی کوئی پرواہ نہیں'۔
سنہ 2014 سے اب تک داعش کا شدت پسند گروہ عراق اور شام میں سینکڑوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور کئی غیر ملکیوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ اس شدت پسند گروہ نے قتل کے دہشت ناک واقعات کی تصاویر کی وڈیو بنا کر اِن کی سماجی میڈیا پر تشہیر بھی کی ہے۔