پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اتوار ایوان کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ ’پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام‘ کا مجوزہ بل 2023 ڈراپ کر دیا۔
وزیرِ مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے بل ایوان میں پیش کیا تو حزبِ اختلاف کے ساتھ ساتھ حکومت کے اراکین و اتحادی جماعتوں نے بھی اس کی مخالفت کی جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ایوان اس بل پر متفق نہیں ہے لہٰذا وہ اس کو ڈراپ کر رہے ہیں۔
صادق سنجرانی نے کہا کہ آج کا اجلاس اس بل کے لیے نہیں بلایا گیا تھا۔ ان کے بقول ایوان کے تمام ارکان بل پر متفق نہیں ہیں۔ حکومت جو مرضی ہے کرے، وہ اس بل کو ڈراپ کر رہے ہیں۔
حکومت کے اکثریت والے ایوان سے بل کے منظور نہ ہونے کو غیر معمولی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
حکومت کے رکنِ سینیٹ عرفان صدیقی نے ’پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے بل‘ کی سینیٹ سے فوری منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کا اس حالت میں منظور ہونا ایک شکنجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ شکنجہ ہمارے گلے پڑے گا۔
عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ پرتشدد انتہا پسندی کا بل بہت اہم ہے اور یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوکر نہیں آیا ہے۔
ان کے بقول ’’ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بل کو قومی اسمبلی کو ارسال کرنے سے پہلے اس پر تفصیلی غور کیا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس بل کو منظور کرنے سے پہلے جانچنے کی ضرورت ہے اور یہ نہ ہو کہ یہ بل منظور کرانے کے بعد پچھتاتے رہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ہمایوں مندوخیل نے سوال کیا کہ چھٹی والے دن ان بلوں پر قانون سازی کیوں کی جا رہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ معمول کے مطابق سینیٹ اجلاس بلا کر قانون سازی کیا نہیں کی جا سکتی؟
ہمایوں مندوخیل کا کہنا تھا کہ انہیں اس بل کی ایک ایک شق سے بدبو آرہی ہے اور اس بل کا مقصد صرف پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانا ہے۔
’فیصلے دو بڑی جماعتیں کر رہی ہیں‘
حکومتی اتحادی جماعت نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت کے بڑے فیصلے دو بڑی جماعتیں کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بل پر کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ بل جمہوریت پر کھلا حملہ ہے۔
طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ آج قانون کی زد میں کوئی اور آئے گا، کل اس ملک میں جو آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرے گا، وہ اس کا نشانہ بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس بل کی نہایت سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اگر یہ بل پاس کیا تو ان کی جماعت ایوان سے واک آؤٹ کرے گی۔
’اس بل کے دور رس نتائج ہوں گے‘
جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس بل کی مخالفت کی اور سینیٹر کامران مرتضی نے اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے دور رس نتائج ہوں گے اور اپنے ہاتھ کاٹنے کے مترادف ہوں گے اور یہ قانون سب کے لیے مصیبت بنے گا۔ ایسی قانون سازی نہ کریں جس سے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہوں۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی بل کی مخالفت میں بولتے ہوئے کہا کہ جو بھی موجودہ حکومت ہوتی ہے، ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ بہت سے معاملات کی زد میں یہ خود بھی آسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کی روح سے اگر آپ نے زور سے نعرہ بھی لگایا تو وہ بھی تشدد پر اکسانے کے مترادف ہو گا۔
پیپلز پارٹی کی حزبِ اختلاف سے حکومت سے تعاون پر زور
اراکین سینیٹ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ عجلت میں قانون سازی کسی کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانونی بلوں کو اس لیے کمیٹیوں کو بھجوائے بغیر منظور کیا جارہا ہے کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے والی ہے۔ ان کے بقول اگر انہیں منظور نہ کرایا گیا تو یہ قانون سازی رہ جائے گی۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ قانون سازی پر حزبِ اختلاف حکومت سے تعاون کرے۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ بل عجلت میں پاس کرانے میں کوئی ممانعت نہیں، ہم اس بل میں اپنی ترامیم لائیں گے۔
چیئرمین سینیٹ نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام بل 2023 پر ایوان سے رائے مانگی تو پی ٹی آئی اراکین نے احتجاج شروع کردیا۔
احتجاج پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آج اجلاس بل کے لیے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں۔
پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل کیا ہے؟
سینیٹ میں پُر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے پیش کردہ بل کے مطابق پُرتشدد انتہاپسندی سے مراد نظریات، عقائد، مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال روکنا ہے۔
بل کے متن کے مطابق تشدد، فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا یا اکسانا، فرقہ واریت کی ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہے پر سزا ہو گی۔
بل کے مطابق پر تشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا ہے جو پُر تشدد انتہا پسند ہو۔ پُر تشدد انتہا پسندی میں دوسرے کو طاقت کے استعمال، تشدد اور دشمنی کے لیے اکسانا شامل ہے۔
بل میں کہا گیا تھا کہ شیڈول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا پُر تشدد انتہا پسندی ہے۔ پُر تشدد انتہا پسندی کی تعریف کرنا اور اس کے لیے معلومات پھیلانا پُر تشدد انتہا پسندی میں شامل ہے۔
بل کے متن کے مطابق حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پُر تشدد انتہا پسندی پر لسٹ 1 اور 2 میں شامل کر سکتی ہے۔
لسٹ ون میں وہ تنظیم ہو گی جو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو جس کا سربراہ پُر تشدد ہو، لسٹ ون میں نام بدل کر دوبارہ منظرِ عام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی۔
مجوزہ بل کے مطابق لسٹ 2 میں ایسے افراد شامل ہیں جو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہوں۔ لسٹ 2 میں پُر تشدد ادارے، لیڈر یا پُر تشدد ادارے کی مالی معاونت کرنے والے بھی شامل ہوں گے۔
بل میں واضح کیا گیا تھا کہ حکومت پُر تشدد فرد اور پُر تشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی لگائے گی۔
پُر تشدد فرد یا تنظیم کے لیڈر یا فرد کی پاکستان میں نقل وحرکت یا باہر جانے پر پابندی ہو گی۔
بل کے متن کے مطابق حکومت پُر تشدد تنظیم کے اثاثوں کی چھان بین کرے گی اور اس کے لیڈر، عہدے داروں اور ممبران کی سرگرمیاں مانیٹر کرے گی۔
بل کے مطابق پُر تشدد تنظیم کے لیڈر، عہدے داروں اور ممبران کا پاسپورٹ ضبط ہو گا۔
اس کے علاؤہ بیرونِ ملک سفر کی اجازت نہیں ہوگی اور اس تنظیم کے لیڈر، عہدے داران، ممبران کے اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔
بل کے متن کے مطابق پُر تشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسی تنظیموں کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔
بل کے مطابق کوئی مالیاتی ادارہ اس تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدے دار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔
حکومت پُرتشدد فرد کو علاقہ چھوڑنے یا علاقے میں رہنے کی ہدایت کرے گی اور اس شخص اور اہلِ خانہ، بہن بھائی، رشتے داروں کے اثاثوں کی چھان بین کرے گی۔
متن کے مطابق تعلیمی اداروں میں کسی شخص کو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے یا پرچار کی اجازت نہیں ہو گی اور کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اپنے اہلِ خانہ کو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا۔
متن کے مطابق پر تشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری ہٹا دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے۔
بل کے مطابق پُر تشدد انتہا پسندی پر 3 سے 10 سال تک قید کی سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔