فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل کے سربراہان نے بدھ کے روز امریکی قانون سازوں کے مشکل سوالات کا سامنا کیا۔ سماعت کا مقصد انتہاپسندی کے آن لائن پھیلاؤ کا جائزہ لینا اور پرتشدد مواد کو روکنے کے سلسلے میں مؤثر اقدامات کو زیر بحث لانا تھا۔
سماعت کے دوران مثبت اقدامات کا ذکر کیا گیا، جب کہ بقیہ کام انجام دینے کی تسلی دی گئی۔
سماجی میڈیا کے قداور پالیسی سازوں نے امریکی سینیٹروں کو بتایا کہ اپنے پلیٹفارمز پر کٹرپن اور شدت پسند مواد کو ہٹائے جانے کے حوالے سے خاصی پیش رفت حاصل کی گئی ہے۔ سماعت کامرس، سائنس اور نقل و حمل سے متعلق قائمہ کمیٹی میں منعقد ہوئی۔
سینیٹروں نے مشورہ دیا کہ ان اداروں کو مزید کام کرنا ہوگا اور اپنی ’ڈجیٹل ذمے داری‘ پوری کرتے ہوئے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے سے روکا جائے گا، تاکہ وہ تشدد کو فروغ نہ دے سکیں۔
اپنے ابتدائی بیان میں، سینیٹر روجر وکر نے کہا کہ ’’اس بات کو خاطر میں لائے بغیر کہ ان اداروں کے پلیٹ فارمز معاشرے کو کتنا فائدہ دیتے ہیں، اس بات کو زیر غور لانا ضروری ہے کہ ان پلیٹفارمز کو استعمال کرتے ہوئے داخلی اور بیرون ملک برائی پھیلائی جا سکتی ہے‘‘۔
انھوں نے ان واقعات کا ذکر کیا جن میں سفید فام قوم پرست اور داعش سے ہمدردی رکھنے والے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اشتعال انگیزی پر مبنی اور اپنے جرائم سے متعلق مواد پوسٹ کرتے ہیں۔
حالیہ مہینوں کے دوران سوشل میڈیا اداروں کے کردار کی چھان بین کی جاتی رہی ہے، ایسے میں جب گولیاں چلا کر بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور ان واقعات کو آن لائن پوسٹ کیا گیا۔
اگست میں ٹیکساس کے شہر الپاسو میں والمارٹ کے اندر شوٹنگ کے واقعے میں 22 افراد ہلاک ہوئے۔ پولیس نے بتایا کہ گولیاں چلانے سے محض 27 منٹ قبل، مشتبہ شخص نے ویب سائٹ پر پناہ گزینوں کے خلاف اعلان شائع کیا۔ ویب سائٹ کا نام ’’8چن‘‘ تھا۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والے ایک واقعے میں خودساختہ سفید فام رہنما نے دو مسجدوں پر فائر کھولا جن میں 51 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ وہ فیس بک پر براہ راست نشریات کر رہا تھا۔