امریکہ نے القاعدہ کے ایک سینیئر رہنما کو شمال مغربی شام میں نشانہ بنایا ہے لیکن اس کی ہلاکت کی تاحال تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
پینٹاگان کے ایک ترجمان پیٹر کک نے بتایا گیا کہ ابو فراس السوری "شامی شہری اور القاعدہ کا دیرنیہ رکن ہے،" جو افغانستان میں لڑائی اور القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے ساتھ بھی کام کرتا رہا ہے۔
السوری کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کا بھی سینیئر رکن تھا۔
پیٹر کک نے کہا کہ السوری ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک تھا جب اسے نشانہ بنایا گیا اور ان کے بقول اس میں متعدد جنگجو ہلاک ہو گئے لیکن حکام ابھی تک یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ السوری بھی ان میں شامل تھا یا نہیں۔
شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم "سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس" یہ کہہ چکی ہے کہ السوری اپنے بیٹے کے ہمراہ ادلب کے ایک گاوں میں ہوئے فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔
امریکہ اس سے قبل النصرہ فرنٹ اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروپوں کو شام میں نشانہ بنا چکا ہے، گو کہ اس کی زیادہ تر فضائی کارروائیوں کا ہدف شدت پسند گروپ داعش رہا ہے۔
ترجمان پیٹر کک نے پینٹاگان میں صحافیوں کو بتایا کہ "ہم کچھ عرصے سے القاعدہ کے رہنماؤں کو نشانہ بناتے آئے ہیں، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ سالوں سے ایک ہدف رہا ہے۔"
پیر کو پینٹاگان نے القاعدہ سے منسلک ایک اور شدت پسند گروپ کے رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
الشباب کے سینیئر کمانڈر حسن علی دوہر کی صومالیہ میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی خبر جمعرات کو وائس آف امریکہ نے دی تھی۔