معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی پشاور میں فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
لطیف آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کی حدود میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا جب کہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کو چھ گولیاں لگی تھیں۔ لطیف آفریدی کو شدید زخمی حالت میں لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔
سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز زیرِِگردش ہیں جس میں نظر آ رہا ہے کہ پولیس ایک شخص کو گرفتار کرکے لے جا رہی ہے جس کو لطیف آفریدی ایڈووکیٹ پر حملہ کرنے والا بتایا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولیاں لگنے کے بعد لطیف آفریدی بار روم میں ایک نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں، جہاں وکلا ان کے گرد موجود ہیں اور جلد از جلد ایمبولینس یا کوئی گاڑی لانے کے لیے کہا جا رہا ہے تاکہ انہیں اسپتال منتقل کیا جا سکے۔
عینی شاہد سعید ظاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں فائرنگ سے لطیف آفریدی شدید زخمی ہوئے تھے۔ ان کو فوری طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔
دوسری جانب لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے ذرائع ابلاغ کو جاری بیان میں بتایا کہ لطیف آفریدی کو مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا تھا۔ انہیں متعدد گولیاں لگی تھیں۔ موت کی تصدیق کے بعد ان کی لاش کو ایمبولینس کے ذریعے آبائی گاؤں روانہ کر دیا گیا۔ لطیف آفریدی کے قتل کا مقدمہ فوری طور پر درج نہیں کیا گیا۔
لطیف آفریدی پر حملہ کرنے والا بھی وکیل
بار روم میں موجود وکلا نے ایک شخص کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ اس شخص پر الزام ہے اس نے لطیف آفریدی پر فائرنگ کی تھی۔
پولیس ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق حراست میں لیے گئے شخص عدنان آفریدی ایڈووکیٹ ہے جو کہ ایک مقتول وکیل سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کے بیٹے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو ذاتی دشمنی کے بنیاد پر قتل کیا گیا البتہ اس حوالے سے حکام کی جانب سے کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔
لطیف آفریدی ایڈووکیٹ پر مقتول وکیل سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جسٹس آفتاب آفریدی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ اور جسٹس آفتاب آفریدی آپس میں کزن تھے۔ لطیف آفریدی پر حملہ کرنے والے عدنان آفریدی ایڈووکیٹ جسٹس آفتاب آفریدی کے بھانجے بھی ہیں۔
واضح رہے کہ سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کو چند برس قبل قتل کیا گیا تھا۔ ان کے قتل کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی البتہ ان کے اہلِ خانہ نے الزام لگایا تھا کہ اس قتل میں لطیف آفریدی ایڈووکیٹ ملوث ہیں۔
جسٹس آفتاب آفریدی کے قتل کا مقدمہ صوابی میں درج تھا حالیہ ہفتوں میں ان کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ بھی سامنے آیا تھا جس میں لطیف آفریدی بری ہو گئے تھے۔
پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلعے خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے لطیف آفریدی نے 1966 میں قانون کی ڈگری لے کر وکالت شروع کی تھی۔ وہ 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شامل ہوئے تھے۔ بعد ازاں قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ اس جماعت کو بعد ازاں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
لطیف آفریدی 1977 میں ترقی پسند نیشنل پروگریسیو ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی قائدین میں شامل ہوئے، جو بعد میں میر غوث بخش بزنجو کی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئی تھی۔
اسی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے ایک دھڑے نے 1986 میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ 1989 میں قومی انقلابی پارٹی اور 1992 میں پختونخوا قومی پارٹی کے بانی اراکین میں بھی شمار ہوتے تھے۔ 2000 میں لطیف آفریدی اجمل خٹک کی نیشنل عوامی پارٹی پاکستان میں شامل ہوئے البتہ دو دو برس ہی ان کے ساتھ رہے۔ 2002 کے عام انتخابات کے بعد وہ دوبارہ عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ لگ بھگ دو دہائیوں تک اس جماعت کے ساتھ رہنے کے بعد وہ 2022 میں نئی بننے والی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل ہوئے تھے۔
لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کئی بار پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر رہے جب کہ وہ سپریم کورٹ بار کی بھی صدارت کر چکے تھے۔
انہوں نے پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لیا اور 1997 کے عام انتخابات میں قبائلی ضلعے خیبر سے آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی بنے تھے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی لطیف آفریدی کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتِ حال تشویش ناک ہے۔
واضح رہے کہ صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ہے جو کہ مرکز میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے والی جماعت ہے۔
شہباز شریف نے بیان میں مزید کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت امن و امان کی بہتری کے فی الفور اقدامات کرے۔
نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی ان کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہادر سیاست دان اور وکیل تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری نے لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے قتل کی مذمت کی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں سابق صدر نے کہا ہے کہ عبدالطیف آفریدی جمہوریت پسند اور شدت پسندی کے سخت مخالف تھے۔ ان کا قتل انتہائی افسوس ناک ہے۔
وکلا تنظیموں کو عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے لطیف آفریدی کے قتل کے خلاف منگل کو ملک بھر میں عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
ایک بیان میں ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وکلا کے قتل پر مذمتی بیانات کے بجائے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل نے بھی منگل کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ایک بیان میں بار کونسل نے کہا ہے کہ حکومت کی عدالتوں اور وکلا کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر تشویش ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربند تھے۔