بھارت کی 13 ریاستوں میں تین پارلیمانی اور 29 اسمبلی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شدید دھچکہ لگا ہے۔
اس نے 29 میں سے صرف آٹھ اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کی جب کہ کانگریس اور علاقائی جماعتوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش اور مرکز کے زیرِ انتظام دادر اور نگر حویلی میں ایک ایک پارلیمانی حلقے میں انتخابات ہوئے جن میں سے مدھیہ پردیش میں کھنڈوا سیٹ بی جے پی نے، ہماچل کی منڈی سیٹ کانگریس نے اور دادر اور نگر حویلی کی نشستیں شیو سینا نے اپنے نام کی ہیں۔ منڈی سیٹ بی جے پی کی تھی مگر اسے کانگریس نے چھین لیا ہے۔
اسی طرح آسام کی پانچ، مغربی بنگال کی چار، مدھیہ پردیش، میگھالیہ اور ہماچل کی تین تین، راجستھان، بہار اور کرناٹک کی دو دو اور آندھرا پردیش، مہاراشٹر، ہریانہ، میزورام اور تیلنگانہ کی ایک ایک اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخابات ہوئے۔
نتائج کے مطابق مغربی بنگال میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے تمام چاروں نشستوں پر اور کانگریس نے ہماچل پردیش کی تمام تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے اور وہاں دونوں پر اسے کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل ایک سیٹ پر بی جے پی کا قبضہ تھا۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کے چار میں سے تین امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئی ہیں۔ بی جے پی کے لیے یہ بڑا دھچکہ ہے۔ کیوں کہ ابھی حال ہی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے۔
کرناٹک میں بی جے پی کو دو میں سے ایک نشست پر کامیابی ملی۔
مبصرین کے مطابق ہماچل اور کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کے بعد دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ پر خطرے کی تلوار لٹک گئی ہے۔
ہریانہ میں ایلن آباد اسمبلی حلقے میں ہونے والے الیکشن کو کافی دلچسپی سے دیکھا گیا۔ وہاں بی جے پی اور جے جے پی کے مشترکہ امیدوار گوبند کانڈا کو شکست ہو گئی ہے اور انڈین نیشنل لوک دل (آئی این ایل ڈی) کے ابھے چوٹالہ کو کامیابی ملی ہے۔
خیال رہے کہ ابھی چوٹالہ نے مرکزی حکومت کے متنازع زرعی قوانین کے خلاف بطور احتجاج اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ریاست میں بی جے پی اور جے جے پی کی مخلوط حکومت ہے۔ وہاں کسانوں نے بی جے پی اور جے جے پی امیدوار کے خلاف انتخابی مہم چلائی تھی۔ سیاسی حلقوں میں اس نتیجے کو زرعی قوانین پر ریفرنڈم سمجھا جا رہا ہے۔
البتہ آسام میں بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ وہاں کی تمام پانچوں نشستوں پر اس کی جیت ہوئی۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے تیلنگانہ میں حضور آباد اسمبلی سیٹ حکمراں تیلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) سے چھین لی ہے۔
ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پارٹی کی شکست تسلیم کی اور کہا کہ انتخابات میں مہنگائی ایک ایشو تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو شکست ہوئی۔
جب کہ بی جے پی کے بعض رہنما شکست کو ریاست میں پارٹی کے اندر چل رہے اختلافات کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار ہرتوش سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضمنی انتخابات میں عام طور پر اسی پارٹی کی جیت ہوتی ہے جو برسرِ اقتدار ہو۔ اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم دو سال تک ایسے ہی نتیجے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کو کامیابی ملی ہے اور بی جے پی کو بڑی شکست ہوئی ہے۔
ان کے مطابق بی جے پی ہماچل پردیش میں برسرِ اقتدار ہے اور پھر بھی اس کی ہار ہوئی۔ ادھر ہریانہ میں بھی وہ حکومت میں ہے البتہ پھر بھی بی جے پی اور جے جے پی کے امیدوار کو شکست ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کی شکست کی کوئی وجہ ہو گی۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں قومی سطح پر کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
ان کے خیال میں ہریانہ میں کسانوں کے احتجاج کا اثر پڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں بی جے پی امیدوار کو شکست ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ آگے جو الیکشن ہوں ان پر بھی اور خاص طور پر ہریانہ، پنجاب اور مغربی یو پی میں کسان تحریک کا اثر پڑے۔ لیکن اس کا اثر پورے ملک پر نہیں پڑے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی انتخابات میں مقامی ایشوز پر ووٹ دیے جاتے ہیں۔ ہر ریاست کے الگ الگ ایشوز ہوتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں مہنگائی کی وجہ سے بی جے پی ہاری ہے، البتہ دوسری ریاستوں میں بھی مہنگائی ہے۔ لیکن کئی جگہوں پر اسے کامیابی ملی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان انتخابات کے نتیجوں سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قومی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتصادی ایشوز کا انتخابات پر اثر پڑتا ہے اور آگے بھی پڑے گا اور ممکن ہے کہ اگلے سال جو انتخابات ہونے والے ہیں ان پر بھی پڑے۔ لیکن ابھی یو پی وغیرہ کے سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے بقول ان انتخابات میں ہار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بی جے پی ختم ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی انتخابات میں جذباتی ایشوز کو ہوا دیتی ہے اور اس کے ووٹر ان ایشوز کی وجہ سے اسے ووٹ دیتے ہیں۔
ایک دوسرے تجزیہ کار ویریندر سینگر کا کہنا ہے کہ مہنگائی، کسان تحریک، خواتین کے خلاف جرائم اور حکومت کا من مانے انداز میں کام کرنا، یہ وہ ایشوز ہیں جن کا آنے والے انتخابات پر اثر پڑے گا۔
ان کے خیال میں بی جے پی کو آنے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے عوامی مسائل پر توجہ دینی ہو گی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر حکومت کسانوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہے تو اس سے اسے فائدہ ہو گا۔
وہ بھی مذہبی اور جذباتی ایشوز کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بی جے پی کو جب اپنی شکست کا احساس ہوتا ہے تو وہ مذہبی کارڈ کھیلنا شروع کر دیتی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگلے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ مذہبی کارڈ کھیلے گی۔
بعض دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں حکمران جماعتوں نے جیسا کہ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی، راجستھان میں کانگریس اور مدھیہ پردیش اور آسام میں بی جے پی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ البتہ ہماچل پردیش میں ایسا نہیں ہوا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان انتخابی نتائج کی روشنی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عوام بی جے پی کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں آنے والے اسمبلی انتخابات پر ان نتائج کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کسان تحریک چلانے والے ’سمیوکت کسان مورچہ‘ کے ترجمان جگموہن سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حکومت زرعی قوانین واپس نہیں لے گی بی جے پی کو شکست ہوتی رہے گی۔ ہریانہ کے نتیجے سے ہمیں حوصلہ ملا ہے اور ہم اسی طرح اترپردیش اور پنجاب کے الیکشن میں بی جے پی امیدواروں کے خلاف مہم چلائیں گے۔
زرعی قوانین کے خلاف احتجاج میں شامل بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ ہماچل پردیش اور ہریانہ میں بی جے پی کی شکست کسان تحریک کی فتح ہے۔
انھوں نے ہریانہ کے نتیجے کے حوالے سے کہا کہ عوام نے بی جے پی۔جے جے پی امیدوار کو ہرا کر کسانوں کی تحریک کو اپنی حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
آسام سے کانگریس کے رکن راجیہ سبھا ریپون بورا کا کہنا ہے کہ آسام میں بی جے پی نے پیسوں اور فرقہ وارانہ سیاست کا استعمال کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔