کم از کم تین اعلیٰ امریکی سفارت کاروں نے محکمہٴ خارجہ کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات محکمہٴ خارجہ کے حکام نے جمعرات کو خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتائی۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں آیا اُن کا جانا نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد عبوری دور کا روایتی حصہ ہے یا یہ سفارت کاروں کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کا کوئی مربوط انداز، جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی براک اوباما کی انتظامیہ میں فرائض انجام دیے تھے۔
ایک ہفتہ قبل، سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی ری پبلیکن صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے نامزد کردہ وزیر خارجہ، ریکس ٹِلرسن کی منظوری دی تھی، جو ’ایکسون موبیل کارپوریشن‘ کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں۔
سینیٹ کے ایوان سے ابھی اُن کی نامزدگی کی توثیق ہونا باقی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز اِن اہل کاروں کے چلے جانے کے بعد، ٹِلرسن کو اِن عہدوں پر فوری تعیناتی کرنا پڑے گی۔
جن اہل کاروں کے ناموں کی رائٹرز نے تصدیق کی ہے، وہ ہیں: معاون وزیر خارجہ برائے سفارتی سکیورٹی، گریگری اسٹار؛ معاون وزیر خارجہ برائے قونصل خانہ امور، مشیل بونڈ؛ اور ہتھیاروں پر کنٹرول اور بین الاقوامی سلامتی کے قائم مقام، نائب وزیر خارجہ، ٹام کنٹری من۔
اِس سے قبل، معاون وزیر خارجہ برائے یورپی اور یورو ایشیائی امور، وکٹوریا نُولینڈ بھی سبک دوش ہوگئی ہیں۔
نام کی تصدیق کیے بغیر، محکمہٴ خارجہ کے قائم مقام ترجمان، مارک ٹونر نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اِن عہدوں پر سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں کی گئی تھیں، جن کی نامزدگی صدر اور توثیق سینیٹ نے کی تھی۔
ٹونر نے کہا ہے کہ وزارتِ خارجہ کے دیگر عہدے بھی خالی ہوں گے، کچھ اہل کار اپنی مرضی سے عہدے چھوڑیں گے یا پھر وہ ملازمت کے گریڈ پر زیادہ وقت تعینات رہ چکے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی تعیناتی کو پسند نہیں کرتا، توقع کرتے ہوئے کہ کسی خاص مدت تک خدمات کا سلسلہ نہیں ہوگا‘‘۔
نا تو محکمہٴ خارجہ ناہی اہل کاروں نے عہدہ چھوڑنے کا معاملہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ جوڑا ہے، لیکن یہ استعیفے نامزد وزیر خارجہ ٹِلرسن کی جانب سے منگل کو محکمے کی عمارت میں آمد کے بعد ہوا ہے۔